مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ زکوۃ کا بیان ۔ حدیث 275

عامل کسی سے ہدیہ وتحفہ قبول نہ کرے

راوی:

عن أبي حميد الساعدي : استعمل النبي صلى الله عليه و سلم رجلا من الأزد يقال له ابن اللتبية الأتبية على الصدقة فلما قدم قال : هذا لكم وهذا أهدي لي فخطب النبي صلى الله عليه و سلم فحمد الله وأثنى عليه وقال : " أما بعد فإني استعمل رجالا منكم على أمور مما ولاني الله فيأتي أحدكم فيقول : هذا لكم وهذا هدية أهديت لي فهلا جلس في بيت أبيه أو بيت أمه فينظر أيهدى له أم لا ؟ والذي نفسي بيده لا يأخذ أحد منه شيئا إلا جاء به يوم القيامة يحمله على رقبته إن كان بعيرا له رغاء أو بقرا له خوار أو شاة تيعر " ثم رفع يديه حتى رأينا عفرتي إبطيه ثم قال : " اللهم هل بلغت اللهم هل بلغت " . . قال الخطابي : وفي قوله : " هلا جلس في بيت أمه أو أبيه فينظر أيهدى إليه أم لا ؟ " دليل على أن كل أمر يتذرع به إلى محظور فهو محظور وكل دخل في العقود ينظر هل يكون حكمه عند الانفراد كحكمه عند الاقتران أم لا ؟ هكذا في شرح السنة

حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبیلہ ازد کے ایک شخص کو کہ جس کا نام ابن لتیبہ تھا زکوۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا چنانچہ جب وہ شخص زکوۃ وصول کر کے مدینہ واپس آیا تو مسلمانوں سے کہنے لگا کہ اتنا مال تو تمہارا ہے یعنی یہ مال زکوۃ میں وصول ہوا ہے اس کے مستحق تم ہو اور یہ اتنا مال تحفہ کے طور پر مجھے دیا گیا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ سنا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا جس میں پہلے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور اس کے بعد فرمایا کہ بعد ازاں! میں تم سے چند آدمیوں کو ان امور کے لئے مقرر کرتا ہوں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے حاکم بنایا چنانچہ تم میں سے ایک شخص جسے میں نے زکوۃ وصول کرنے پر مقرر کیا ہے اپنا کام کر کے آتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ تمہارے لئے ہے اور یہ مال مجھے تحفہ میں دیا گیا ہے اور اس سے پوچھو تو وہ شخص اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا کہ تحفہ دینے والے اسے گھر ہی بیٹھے تحفہ بھیج دیتے تب وہ دیکھتا کہ اس کے پاس تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں؟ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے! یاد رکھو تم میں سے جو شخص کوئی بھی چیز لے گا اسے وہ قیامت کے دن رسوائی و زلت کے طور پر اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے لائے گا اگر وہ اونٹ ہو گا کہ جس کو اس نے بغیر استحقاق لیا ہو گا تو اس کی آواز ہو گی اگر وہ بیل ہو گا تو اس کی آواز ہو گی اور اگر وہ بکری ہو گی تو اس کی آواز ہو گی یعنی وہ دنیا میں جو بھی چیز بغیر استحقاق کے لے گا وہی چیز قیامت کے دن اس کی گردن پر سوار ہو گی اور بولتی ہو گی اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں دست مبارک اتنے اونچے اٹھائے کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی پھر فرمایا اے پروردگار! تونے جو کچھ فرمایا میں نے لوگوں تک پہنچا دیا ہے اے پروردگار میں نے لوگوں تک پہنچا دیا۔ (بخاری ومسلم) اور خطابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی" وہ شخص اپنے باپ یا اپنی ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا اور تب وہ دیکھتا کہ اس کے پاس تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں؟ کے بارہ میں فرمایا ہے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ کسی حرام کام کے لئے جس چیز کو وسیلہ بنایا جائے گا تو وہ وسیلہ بھی حرام ہو گا نیز اگر کسی ایک عقد (معاملہ) کو دوسرے عقد (مثلاً خرید و فروخت، ہبہ اور نکاح وغیرہ) سے متعلق کیا جائے تو اس وقت دیکھا جائے گا کہ آیا ان معاملوں کا علیحدہ علیحدہ حکم ان کے ایک ساتھ متعلق ہونے کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں ! اگر ہے تو درست ہو گا اور اگر نہیں ہے تو درست نہیں ہو گا۔ (شرح السنہ)

تشریح
ارشاد گرامی " وہ دیکھتا کہ اس کے پاس تحفہ بھیجا جاتا ہے یا نہیں" کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو تحفہ تحائف کی پیش کش اس کی ذات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے عہدہ کی وجہ سے ہے اگر وہ زکوۃ وصول کرنے کے لئے عامل مقرر نہیں کیا جاتا بلکہ وہ اپنے گھر بیٹھا رہتا ہے تو اسے کوئی تحفہ کیوں دیتا؟"
اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر عامل کو اس کا کوئی عزیز و دوست تحفہ دے تو دیکھا جائے کہ اگر اس کے لئے اس تحفہ کی پیش کش اس کے عامل ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس کے عہدہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے تعلقات اور دیرینہ مراسم کی وجہ سے ہے اور یہ ہمیشہ کا معمول ہے تو وہ تحفہ اس کے لئے جائز ہو گا اور اگر تحفہ کی پیش کش محض اس کے عہدے کی وجہ سے ہو گی تو وہ تحفہ اس کے لئے جائز نہیں ہو گا جیسا کہ قاضی و دیگر حکام کے بارہ میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی قاضی و حاکم کی دعوت کی جائے یا اسے کوئی تحفہ دیا جائے تو وہ اسے اس وقت قبول کر سکتا ہے جب کہ وہ یہ جانے کہ یہ پیش کش میرے موجود عہدہ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اپنے ذاتی تعلقات کی وجہ سے اور ہمیشہ کے معمول کے مطابق ہے۔
مگر ابن ملک یہ فرماتے ہیں کہ عامل (حاکم) کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی شخص کا تحفہ قبول کرے کیونکہ تحفہ کی پیش کش کا واحد پس منظر اس کی یہ خواہش ہی ہوتی ہے کہ عامل زکوۃ میں سے کچھ حصہ چھوڑ دے (اور حاکم اس کے ساتھ غیر قانونی رعایت کا معاملہ کرے) اور یہ مطلقا جائز نہیں ہے۔
خطابی رحمہ اللہ اس حدیث سے دو قاعدے اور شرعی اصول ثابت کر رہے ہیں پہلا قاعدہ اور شرعی اصول یہ بیان فرما رہے ہیں کہ اگر کسی حرام چیز کے حصول کی خاطر کسی مباح اور جائز چیز کو وسیلہ اور ذریعہ بنایا جائے گا تو وہ مباح و جائز چیز بھی ایک حرام مقصد کا وسیلہ ہونے کی وجہ سے حرام ہو جائے گی۔ مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ کوئی شخص ناجائز نفع اور سود حاصل کرنے کے لئے کسی شخص کو قرض دیتا ہے ظاہر ہے کہ قرض دینا ایک جائز فعل ہے مگر چونکہ قرض دینے والے نے سود حاصل کرنے کے لئے قرض دیا ہے اس لئے اس کا قرض دینا بھی حرام ہو جائے گا، اسی طرح گھر ہے کہ کوئی شخص اسے اس لئے بطور رہن و گروی لے کہ اس میں بغیر کرایہ کے سکونت اختیار کرے یا جانور کہ اسے رہن لیا جائے اور پھر بغیر معاوضہ کے اس پر سواری کرے یا اس سے دوسرا فائدہ حاصل کرے۔
دوسرا قاعدہ اور شرعی اصول یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر دو الگ الگ عقد (معاملوں) کو ایک دوسرے کے ساتھ متعلق کیا جائے تو اس وقت یہ دیکھا جائے گا کہ ان دونوں معاملوں کے ایک متعلق ہونے کے حکم کے مطابق ہے یا نہیں۔ یعنی اگر وہ معاملے الگ الگ جائز ہو سکتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہو کر بھی جائز رہیں گے اور اگر دونوں معاملے الگ الگ درست نہیں ہوتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ متعلق ہو کر بھی درست نہیں ہوں گے مثلا کوئی شخص کسی دوسرے کو دس روپے کی چیز سو روپے میں فروخت کرے تاکہ وہ اسے ایک ہزا روپیہ قرض دے اور اس قرض کا نفع(سود) اس چیز کی قیمت کے طور پر وصول کرے یعنی جیسے اس صورت میں نو روپے قرض دینے والے کو مل گئے جو اس کے قرض کا نفع ہو گیا یہ صورت جائز نہیں ہے کیونکہ اگر وہ دس روپیے کی چیز سو روپیہ کی بیچتا اور خریدار کو قرض کا لالچ نہ ہوتا تو وہ ہرگز اتنی زائد قیمت پر نہ لیتا۔
اور جہاں دو معاملے ایسے ہوں کہ اگر ایک کو دوسرے سے الگ کر دیں تو بھی جائز اور درست ہوں جیسے اس صورت مذکورہ میں دس روپے کی چیز دس ہی روپے میں بیچی جاتی اور ایک ہزار روپے قرض بھی دیتا تو چونکہ یہ دونوں معاملے الگ الگ جائز ہوئے اس لئے ایک دوسرے سے متعلق یک جا ہو کر بھی درست ہوں گے۔
خطابی نے حدیث سے جو یہ دو قاعدے مستنبط کئے ہیں ان میں سے پہلا قاعدہ تو بلا اختلاف سب کے ہاں قابل قبول ہے اس لئے کہ تمام ائمہ کے مسلک میں یہ قاعدہ مقرر ہے کہ وسائل و ذرائع چونکہ مقاصد ہی کے حکم میں ہوتے ہیں اس لئے نیکی کا وسیلہ بھی نیکی ہی ہو گا اور برائی کا وسیلہ بھی برائی ہو گا۔
لیکن دوسرا قاعدہ امام مالک اور امام احمد کے ہاں تو قابل قبول ہے کیونکہ وہ ہر اس حیلہ (تدبیر) کو ناجائز قرار دیتے ہیں جس کے ذریعہ سے ربوا (سود) وغیرہ کی حرمت سے بچ جائے گا مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام شافعی اس دوسرے قاعدہ کو نہیں مانتے کیونکہ ان حضرات کے ہاں حیلہ مباح ہے۔ تاہم اتنی بات ملحوظ رہے کہ اگرچہ امام اعظم ابوحنیفہ اس قاعدہ کے قائل نہیں ہیں لیکن اس قاعدہ کی جو مثال بیان کی گئی ہے وہ صورت امام صاحب کے نزدیک بھی ایک دوسرے شرعی قاعدہ کے مطابق جائز نہیں ہے چونکہ امام صاحب کے نزدیک حیلہ کی بعض صورتیں درست ہیں اس مناسبت سے کہا گیا ہے کہ وہ خطابی کے ذکر کردہ دوسرے قاعدہ کے قائل نہیں ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں