مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جن لوگوں کو زکوۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان ۔ حدیث 322

صدقہ کے مال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احتیاط

راوی:

وعن أبي هريرة قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أتي بطعام سأل عنه : " أهدية أم صدقة ؟ " فإن قيل : صدقة : قال لأصحابه : " كلوا " ولم يأكل وإن قيل : هدية ضرب بيده فأكل معهم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھانے کی کوئی چیز لائی جاتی تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بارے میں پوچھتے کہ یہ ہدیہ ہے یا صدقہ اگر بتایا جاتا کہ یہ صدقہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بنی ہاشم کے علاوہ) اپنے دوسرے صحابہ سے فرماتے کہ کھالو لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود نہ کھاتے، اور اگر بتایا جاتا کہ یہ ہدیہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا دست مبارک بڑھاتے اور صحابہ کے ساتھ اسے تناول فرماتے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
صدقہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو کسی محتاج و ضرورت مند کو از راہ مہربانی دیا جاتا ہے اور اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ کی رضا حاصل ہو اور آخرت میں اس کا اجر و ثواب ملے چونکہ صدقہ کا مال لینے والے کی ایک طرح سے ذلت اور کمتری محسوس ہوتی ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے مطلقاً صدقہ لینا حرام تھا۔
ہدیہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی بڑے اور عظیم المرتبت شخص کی خدمت میں کوئی چیز از راہ تعظیم و تکریم پیش کرے۔ ہدیہ کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ دنیاوی طور پر اس کا تعلق طرفین سے ہوتا ہے بایں طور کہ جو شخص کسی کو کوئی چیز ہدیہ کرتا ہے تو وہ دنیا ہی میں اس کا اس طرح بدلہ بھی پاتا ہے کہ جسے اس نے ہدیہ دیا ہے وہ کسی وقت اسے بھی کوئی چیز ہدیہ کے طور پر دیتا ہے جب کہ صدقہ میں اس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

یہ حدیث شیئر کریں