مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان ۔ حدیث 334

کن لوگوں کو سوال کرنا جائز ہے

راوی:

عن قبيصة بن مخارق الهلالي قال : تحملت حمالة فأتيت رسول الله صلى الله عليه و سلم أسأله فيها . فقال : " أقم حتى تأتينا الصدقة فنأمر لك بها " . قال ثم قال : " يا قبيصة إن المسألة لا تحل إلا لأحد ثلاثة رجل تحمل حمالة فحلت له المسألة حتى يصيبها ثم يمسك ورجل أصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش أو قال سدادا من عيش ورجل أصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجى من قومه . لقد أصابت فلانا فاقة فحلت له المسألة حتى يصيب قواما من عيش أو قال سدادا من عيش فما سواهن من المسألة يا قبيصة سحتا يأكلها صاحبها سحتا " . رواه مسلم

حضرت قبیصہ بن مخارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک ایسے قرضہ کی ضمانت لی جو دیت کی وجہ سے تھا چنانچہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ادائیگی قرض کے لئے کچھ رقم یا مال کا سول کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ دن ٹھہرے رہو، جب ہمارے پاس زکوۃ کا مال آئے گا تو اس میں سے تمہیں دینے کے لئے کہہ دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قبیصہ! صرف تین طرح کے لوگوں کے لئے سوال کرنا جائز ہے ایک تو اس شخص کے لئے جو کسی کے قرض کا ضامن بن گیا ہو بشرطیکہ مانگنے میں مبالغہ نہ کرے بلکہ اتنے ہی مال یا رقم کا سوال کرے کہ اس سے قرضہ کو ادا کر دے اور اس کے بعد پھر نہ مانگے، دوسرے اس شخص کے لئے جو کسی آفت و مصیبت مثلا قحط و سیلاب وغیرہ میں مبتلا ہو جائے اور اس کا تمام مال ہلاک و ضائع ہو جائے ، چنانچہ اس کو صرف اس قدر مانگنا جائز ہے جس سے اس کی غذا و لباس کی ضرورت پوری ہو جائے یا فرمایا کہ اس قدر مانگے کہ اس کی محتاجگی دور ہو جائے اور اس کی زندگی کے لئے سہارا ہو جائے، تیسرے اس شخص کے لئے جو غنی ہو مگر اس کو کوئی ایسی سخت حاجت پیش آ گئی ہے جسے اہل محلہ بھی جانتے ہوں مثلاً گھر کا تمام مال و اسباب چوری ہو جائے یا اور کسی مصیب و حادثے سے دوچار ہونے کے وجہ سے ضرورت مند بن جائے اور قوم محلہ و بستی کے تین صاحب عقل و فراست لوگ اس بات کی شہادت دیں کہ واقعی اسے سخت حاجت پیش آ گئی ہے تو اس کے لئے اس قدر مانگنا جائز ہے جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے ۔ یا فرمایا کہ اس کی وجہ سے اس کی محتاجگی دور ہو جائے اور اس کی زندگی کا سہارا ہو جائے۔ قبیصہ! ان تین کے علاوہ کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اگر کوئی شخص ان تین مجبوریوں کے علاوہ دس سوال دراز کر کے کسی سے کچھ لے کر کھاتا ہے تو وہ حرام کھاتا ہے۔ (مسلم)

تشریح
" حمالہ" اس مال کو کہتے ہیں جو کسی شخص پر دیت کے طور پر کچھ لوگوں کو دینا ضروری ہو اور کوئی دوسرا شخص اس مال کی عدم ادائیگی کی بناء پر آپس کے لڑائی جھگڑے کو نمٹانے کے لئے درمیان میں پڑ جائے اور وہ مال اپنے ذمہ لے لے اور اس کی وجہ سے قرض دار ہو جائے۔
حدیث کے آخر میں تین صاحب عقل و فراست لوگوں کی شہادت کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ احتیاج و ضرورت کے واقعی اور حقیقی ہونے کے لئے بطور مبالغہ ہے نیز اس بات کا احساس پیدا کرنے کے لئے کہ لوگ دست سوال دراز کرنے کو آسان نہ سمجھیں اور اس برے فعل سے بچتے رہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں