مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان ۔ حدیث 341

سوال نہ کرنے کی فضیلت

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري قال : إن أناسا من الأنصار سألوا رسول الله صلى الله عليه و سلم فأعطاهم ثم سألوه فأعطاهم حتى نفد ما عنده . فقال : " ما يكون عندي من خير فلن أدخره عنكم ومن يستعف يعفه الله ومن يستغن يغنه الله ومن يتصبر يصبره الله وما أعطي أحد عطاء هو خير وأوسع من الصبر "

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن انصار میں سے چند لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ مانگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عطا فرما دیا۔ انہوں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب بھی دے دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ بھی مال ہو گا میں تم سے بچا کر اس کا ذخیر نہیں کروں گا اور یاد رکھو کہ جو شخص لوگوں سے سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بری باتوں سے بچاتا ہے اور اسے لوگوں کا محتاج نہیں کرتا اس طرح اس کی خود داری کو باقی رکھتا ہے، نیز جو شخص انتہائی معمولی چیز پر بھی قناعت کرتا ہے اور کسی سے سوال نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے قناعت آسان کر دیتا ہے اور جو شخص بے پروائی ظاہر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بے پرواہ بنا دیتا ہے یعنی جو شخص دوسروں کے مال و زر سے بے پرواہ ہوتا ہے اور ہاتھ پھیلانے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اور جو شخص صبر کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا فرماتا ہے یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے صبر کی توفیق طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے صبر آسان کر دیتا ہے اور یاد رکھو کہ صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی دوسری چیز عطا نہیں کی گئی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام عطا و بخشش میں صبر سب سے بہتر عطاء ہے۔ (بخاری ومسلم)

یہ حدیث شیئر کریں