مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان ۔ حدیث 365

افضل صدقہ

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رجل : يا رسول الله أي الصدقة أعظم أجرا ؟ قال : " أن تصدق وأنت صحيح شحيح تخشى الفقر وتأمل الغنى ولا تمهل حتى إذا بلغت الحلقوم قلت : لفلان كذا ولفلان كذا وقد كان لفلان "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ثواب کے اعتبار سے کونسا بڑا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا افضل صدقہ وہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اس وقت اپنا مال خرچ کرو جب کہ تم توانا و تندرست ہو اور مال جمع کرنے کی حرص رکھتے ہو، فقر و افلاس سے ڈرتے رہو اور حصول دولت کے امیدوار ہو یاد رکھو صدقہ خیرات کے معاملے میں ڈھیل نہ دو، یہاں تک کہ جب تمہاری جان حلق میں آ جائے تو کہنے لگو کہ اتنا مال فلاں کے لئے ہے اور اتنا مال فلاں کے لئے ہے۔ درآنحالیکہ اس مال کا مالک فلاں وارث ہو جائے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ افضل اور بہت زیادہ ثواب کا باعث وہ صدقہ ہوتا ہے جو زندگی کے اس دور میں ادا ہو جب کہ صحت تندرستی رفیق جان ہو، کیونکہ زندگی کے اس حصہ میں درازگی عمر کی امید مال جمع کرنے کی حرص کا باعث ہوتی ہے صحت مند و تندرست انسان نہ صرف یہ کہ جنگ زرگری کے میدان میں آگے رہنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس کی جبلت طبعی، بخل کی طرف مائل ہوتی ہے اندر کا چھپا ہوا شیطان اسے فقر و محتاجگی سے ڈراتا رہتا ہے اور اس کے دل میں یہ وسوسہ و خیال پیدا کرتا ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کی وجہ سے کہیں مفلس و قلاش نہ بن جاؤں نیز زیادہ سے زیادہ دوسلت حاصل کرنے آرزو بسااوقات حرص و ہوس کا روپ اختیار کر لیتی ہے لہٰذا زندگی کے اس حصے میں اللہ کی خوشنودی کے لئے مال خرچ کرنا درحقیقت نیک بختی و سعادت کی معراج ہے۔
حدیث کے آخری جملے ولا تمہل الخ کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ دینے اور خیرات کرنے میں اتنی تاخیر، سستی اور غفلت نہ کرو کہ جب زندگی کا پیمانہ لبریز ہونے لگے جان نکل کر حلق میں آ جائے تو کہنے لگو کہ اتنا مال فلاں شخص کے لئے ہے اور اتنا مال فلاں نیک کام کے لئے حالانکہ اس وقت وہ مال وارثوں کا ہو جاتا ہے بایں طور کہ وارثوں کا حق متلعق ہو جاتا ہے۔
بہرحال اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ صحت و تندرستی کی حالت میں اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا بڑی فضیلت اور ثواب کی بات ہے مگر جب مرنے کا وقت آئے تو اس وقت اپنے مال کو نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنا یا اسے اس وقت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا زیادہ ثواب کا باعث نہیں ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں