مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ بہترین صدقہ کا بیان ۔ حدیث 433

اپنی بیوی یا اپنے شوہر کو صدقہ دینے کا مسئلہ

راوی:

وعن زينب امرأة عبد الله بن مسعود قالت : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " تصدقن يا معشر النساء ولو من حليكن " قالت فرجعت إلى عبد الله فقلت إنك رجل خفيف ذات اليد وإن رسول الله صلى الله عليه و سلم قد أمرنا بالصدقة فأته فاسأله فإن كان ذلك يجزي عني وإلا صرفتها إلى غيركم قالت فقال لي عبد الله بل ائتيه أنت قالت فانطلقت فإذا امرأة من الأنصار بباب رسول الله صلى الله عليه و سلم حاجتي حاجتها قالت وكان رسول الله صلى الله عليه و سلم قد ألقيت عليه المهابة . فقالت فخرج علينا بلال فقلنا له ائت رسول الله صلى الله عليه و سلم فأخبره أن امرأتين بالباب تسألانك أتجزئ الصدقة عنهما على أزواجهما وعلى أيتام في حجورهما ولا تخبره من نحن . قالت فدخل بلال على رسول الله صلى الله عليه و سلم فسأله فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من هما " . فقال امرأة من الأنصار وزينب فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أي الزيانب " . قال امرأة عبد الله فقال له رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لهما أجران أجر القرابة وأجر الصدقة " . واللفظ لمسلم

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ مجلس ذکر و نصیحت میں عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ و خیرات کرو، اگرچہ وہ تمہارے زیورات ہی میں سے کیوں نہ ہو! حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی اور ان سے کہنے لگی کہ آپ خالی ہاتھ یعنی مفلس مرد ہیں اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں صدقہ و خیرات کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ اس لئے آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جا کر یہ معلوم کریں کہ اگر میں آپ پر اور آپ کی اولاد پر بطور صدقہ خرچ کروں تو آیا یہ صدقہ میرے لئے کافی ہو گا یا نہیں؟ اگر آپ کو اور آپ کی اولاد کو میرا صدقہ دینا میرے لئے کافی ہو جائے تو پھر آپ ہی کو صدقہ دے دوں اور اگر یہ میرے لئے کافی نہ ہو تو پھر آپ کے علاوہ دوسرے لوگوں پر بطور صدقہ خرچ کروں! حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا کہ تم ہی جاؤ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں پوچھ لو چنانچہ میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی میں وہاں کیا دیکھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے پر انصار کی ایک عورت کھڑی ہے اور (وہاں آنے کی ) ہماری حاجت یکساں تھی ۔ (یعنی وہ وہ بھی معلوم کرنے آئی تھی کہ آیا میں اپنے صدقہ کا مال اپنے خاوند اور اس کے متعلقین کو دے سکتی ہوں یا نہیں ؟ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہیبت و عظمت کا پیکر تھی اس لئے ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانے کی جرات نہ ہوئی اور ہم وہاں سے نکل کر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جا کر کہئے کہ دروازے پر کھڑی ہوئی دو عورتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتی ہیں کہ کیا اپنے شوہروں اور ان یتیموں کو جو ان کی پرورش میں ہیں ان کا صدقہ دینا ان کے لئے کافی ہو جائے گا مگر دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ نہ بتائیے گا کہ ہم کون ہیں؟ یعنی انہوں نے اپنے آپ کو ظاہر کر کے ریا سے بچنے میں مبالغہ کیا کہ پہلے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال سے پوچھا کہ دو عورتیں کون ہیں؟ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ایک تو انصار کی کوئی عورت ہے اور دوسری زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں اپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ کون سی زینب؟ (کیونکہ زینب نام کی کئی عورتیں ہیں) حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ (ان سے جا کر کہہ دو کہ اس صورت میں) ان کے لئے دوہرا ثواب ہے، ایک تو حق قربت کی ادائیگی کا اور دوسرا صدقہ دینے کا ۔ (بخاری و مسلم الفاظ مسلم کے ہیں)۔

تشریح
قد القیت علیہ المہایہ ، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو ہیبت و عظمت کا ایسا پیکر بنایا تھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرعوب ہوتے، ڈرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے انتہا تعظیم کرتے تھے اسی وجہ سے کسی کو بھی جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ اچانک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچ جائے اور ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ عظمت و ہیبت (نعوذ باللہ) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی بد خلقی اور خشونت کی وجہ سے نہیں تھی۔ بلکہ یہ تو اللہ داد تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عظمت و ہیبت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و تعظیم کا سبب بنایا تھا۔
جب حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو منع کر دیا تھا کہ وہ ان کے نام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ بتائیں تو انہیں ان کی اس خواہش کا احترام کرنا چاہئے تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چونکہ ان سے ان عورتوں کا نام پوچھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی بناء پر ان کے لئے یہ ہی ضروری ہو گیا تھا کہ وہ ان کا نام بتا دیں چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی۔
یہ حدیث کی وضاحت تھی اب اصل مسئلہ کی طرف آئیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آیا کوئی عورت اپنے خاوند یا کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی زکوۃ کا مال دے سکتا ہے یا نہیں۔ لہٰذا اس بارے میں تو بالاتفاق تمام علماء کا یہ مسلک ہے کہ کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی زکوۃ کا مال نہ دے مگر اس کے برعکس صورت میں امام ابوحنیفہ تو یہ فرماتے ہیں کہ کوئی عورت اپنے خاوند کو اپنی زکوۃ کا مال نہ دے کیونکہ مرد کے منافع اور مال میں عادۃ اکثر دونوں ہی شریک ہوتے ہیں اس طرح کوئی عورت اپنے خاوند کو زکوۃ کا مال دے گی تو اس مال سے خود بھی فائدہ حاصل کرے گی جو جائز نہیں ہو گا۔صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جس طرح مرد کا اپنی بیوی کو زکوۃ کا مال دینا جائز ہے اسی طرح بیوی بھی اپنی زکوۃ کا مال اپنے خاوند کو دے سکتی ہے ائمہ کے اس اختلاف کی بنا پر کہا جائے گا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک اس مذکور صدقہ سے صدقہ نفل مراد ہوگا اور صاحبین کے نزدیک اس سے صدقہ نفل بھی مراد ہو سکتا ہے اور صدقہ فرض یعنی زکوۃ کو بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں