مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے جو چیز خرچ کرسکتی ہے اس کا بیان ۔ حدیث 453

مالک کی اجازت کے بغیر خرچ کرنا مناسب نہیں ہے

راوی:

عن عمير مولى آبي اللحم قال : أمرني مولاي أن أقدد لحما فجاءني مسكين فأطعمته منه فعلم بذلك مولاي فضربني فأتيت رسول الله صلى الله عليه و سلم فذكرت ذلك له فدعاه فقال : " لم ضربته ؟ " فقال يعطي طعامي بغير أن آمره فقال : " الأجر بينكما " . وفي رواية قال : كنت مملوكا فسألت رسول الله صلى الله عليه و سلم : أأتصدق من مال موالي بشيء ؟ قال : " نعم والأجر بينكما نصفان " . رواه مسلم

حضرت ابواللحم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے آقا کے حکم کے مطابق گوشت (کو سکھانے کے لئے اس ) کے پارچے بنا رہا تھا کہ میرے پاس ایک مسکین و فقیر آیا میں نے اسے اس میں سے کھانے کے لئے دے دیا۔ جب میرے آقا کو اس کا علم ہوا تو اس نے مجھے مارا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پورا ماجرا کہہ سنایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے آقا کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تم نے اسے کیوں مارا ہے؟ اس نے کہا کہ یہ میرے کھانے میں سے بغیر میری اجازت کے دے دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ (اگر تم صدقہ کرنے کا حکم دے دیتے یا اس کے صدقہ کرنے سے تم راضی و خوش ہوتے تو) تم دونوں ثواب کے حق دار ہوتے۔ ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ عمیر نے کہا کہ میں ایک شخص کا غلام تھا چنانچہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اپنے مالک کے مال میں کچھ (یعنی قلیل و کمتر درجہ کی چیز جس کے خرچ کرنے کی عام طور پر اجازت ہوتی ہے) بطور صدق خرچ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اور اس کا ثواب تم دونوں کو آدھا آدھا ملے گا (مسلم)

تشریح
علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمیر کی شکایت پر ان کے آقا ابواللحم سے جو کچھ کہا یا عمیر کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مالک کے مال میں غلام و ملازم کو مطلقاً تصرف کا حق حاصل ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو صرف اس بات پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا کہ غلام و ملازم کو کسی ایسی بات پر مارا جائے جسے مالک تو غلطی یا اپنا نقصان تصور کرتا ہے مگر حقیقت میں وہ مالک کے حق میں غلطی یا نقصان نہیں ہے بلکہ اس کے اس میں بہتری و بھلائی ہے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابواللحم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ترغیب دلائی کہ ان کے غلام نے ان کے حق میں چونکہ بہتر اور نیک کام ہی کیا ہے۔ اس لئے اس سے درگرزر کریں اور ثواب کو غنیمت جانیں جو ان کا مال خرچ ہونے کی وجہ سے انہیں ملا ہے۔ گویا یہ ابواللحم کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہنمائی اور تعلیم تھی نہ کہ عمیر کے فعل کی تقریر یعنی عمیر کے فعل کو آپ نے جائز قرار نہیں دیا۔

یہ حدیث شیئر کریں