مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ بیوی اپنے شوہر کے مال میں سے جو چیز خرچ کرسکتی ہے اس کا بیان ۔ حدیث 454

صدقہ دے کر اسے واپس لینے یا خریدنے کی ممانعت

راوی:

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : حملت على فرس في سبيل الله فأضاعه الذي كان عنده فأردت أن أشتريه وظننت أنه يبيعه برخص فسألت النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " لا تشتره ولا تعد في صدقتك وإن أعطاكه بدرهم فإن العائد في صدقته كالكلب يعود في قيئه " . وفي رواية : " لا تعد في صدقتك فإن العائد في صدقته كالعائد في قيئه "

امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے کہا ایک مرتبہ میں نے ایک شخص کو اللہ کی راہ میں سواری کے لئے گھوڑا دیا (یعنی ایک مجاہد کے پاس گھوڑا نہیں تھا اس لئے میں نے اسے گھوڑا دے دیا) اس شخص نے اس گھوڑے کو جو اس کے پاس تھا ضائع کر دیا (یعنی اس نے گھوڑے کی دیکھ بھال نہیں کی جس کی وجہ سے گھوڑا دبلا ہو گیا) میں نے سوچا کہ میں وہ گھوڑا اس سے خرید لوں اور خیال تھا کہ وہ اس گھوڑے کو سستے داموں بیچ دے گا، مگر (خریدنے سے پہلے) میں نے اس بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے نہ خریدو اور نہ اپنا دیا ہو صدقہ واپس لو اگرچہ وہ تمہیں ایک درہم ہی میں کیوں نہ دے (گویا یہ حقیقۃ نہیں بلکہ صورۃ اپنا صدقہ واپس لینا ہے) کیونکہ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس لینے والا شخص اس کتے کی مانند ہے جو اپنی قے چاٹتا ہے ۔ ایک روایت میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس نہ لو ( خواہ واپس لینا صورۃ ہی کیوں نہ ہو) کیونکہ اپنا دیا ہوا صدقہ واپس لینے والا اس شخص کی مانند ہے جو قے کرے اور اسے چاٹ لے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذہن میں گھوڑے کے سستے داموں حاصل ہو جانے کا خیال اس لئے پیدا ہوا کہ گھوڑا چونکہ دبلا ہو گیا تھا اس صورت میں ظاہر ہے کہ اس کی اصلی قیمت نہیں لگتی یا پھر انہوں نے ایسا خیال اس لئے قائم کیا کہ میں نے چونکہ اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کیا تھا اس لئے ہو سکتا ہے کہ وہ بھی اس وقت میرے ساتھ رعایت و مروت کا معاملہ کرے۔
ابن ملک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث کے ظاہری الفاظ و مفہوم کے پیش نظر بعض حضرات کا مسلک یہ ہے کہ اپنا دیا ہوا صدقہ خریدنا حرام ہے لیکن اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس طرح صرف قبح لغیرہ لازم آتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جس شخص کو صدقہ کا مال دیا جاتا ہے وہ اس مال کو جب صدقہ دینے والے ہی کے ہاتھوں بیچتا ہے تو اس بناء پر کہ اس نے اس کو صدقہ دے کر اس کے ساتھ احسان کیا ہے وہ اسے سستے داموں ہی بیچ دیتا ہے لہٰذا صدقہ دینے والا اس صورت میں بقدر رعایت مال جو اس صدقہ ہی کا حصہ تھا، واپس لینے والوں میں شمار ہوتا ہے۔
بہرحال صحیح اور قابل اعتماد قول یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد لا تشتریہ (اسے نہ خریدو) نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں