مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ روزے کا بیان ۔ حدیث 462

ماہ رمضان کی فضیلت

راوی:

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه . ومن قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه . ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے ایمان کے ساتھ (یعنی شریعت کو سچ جانتے ہوئے اور فرضیت رمضان کا اعتقاد رکھتے ہوئے) اور طلب ثواب کی خاطر (یعنی کسی خوف یا ریاء کے طور پر نہیں بلکہ خالصۃ للہ) رمضان کا روزہ رکھا تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے تھے نیز جو شخص ایمان کے ساتھ اور طلب ثواب کی خاطر رمضان میں کھڑا ہوا تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے تھے اسی طرح جو شخص شب قدر میں ایمان کے ساتھ(یعنی شب قدر کی حقیقت کا ایمان و اعتقاد رکھتے ہوئے) اور طلب ثواب کی خاطر کھڑا ہوا تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے تھے۔ (بخار ومسلم)

تشریح
رمضان میں کھڑا ہونے ، سے مراد یہ ہے کہ رمضان کی راتوں میں تراویح پڑھے، تلاوت قرآن کریم اور ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہے نیز اگر حرم شریف میں ہو تو طواف و عمرہ کرے یا اسی طرح کی دوسری عبادات میں اپنے آپ کو مصروف رکھے۔
شب قدر میں کھڑا ہونے ، کا مطلب یہ ہے کہ شب قدر عبادت الٰہی اور ذکر اللہ میں مشغول رہے خواہ اس رات کے شب قدر ہونے کا اسے علم ہو یا نہ ہو۔
غفرلہ ماتقدم من ذنبہ۔ تو اس کے وہ گناہ بخش دئیے جائیں گے جو اس نے پہلے کئے تھے۔ کے بارے میں علامہ نووی فرماتے ہیں کہ مکفرات (یعنی وہ اعمال جو گناہوں کو ختم کرنے والے ہوتے ہیں) صغیرہ گناہوں کو تو مٹا ڈالتے ہیں اور کبیرہ گناہوں کو ہلکا کر دیتے ہیں اگر کسی خوش نصیب کے نامہ اعمال میں گناہ کا وجود نہیں ہوتا تو پھر مکفرات کی وجہ سے جنت میں اس کے درجات بلند کر دئیے جاتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں