مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ روزے کا بیان ۔ حدیث 463

روزہ کا ثواب

راوی:

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كل عمل ابن آدم يضاعف الحسنة بعشر أمثالها إلى سبعمائة ضعف قال الله تعالى : إلا الصوم فإنه لي وأنا أجزي به يدع شهوته وطعامه من أجلي للصائم فرحتان : فرحة عند فطره وفرحة عند لقاء ربه ولخلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك والصيام جنة وإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث ولا يصخب وفإن سابه أحد أو قاتله فليقل إني امرؤ صائم "

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ بنی آدم کے ہر نیک عمل کا ثواب زیادہ کیا جاتا ہے بایں طور کہ ایک نیکی کا ثواب دس سے سات سو گنا تک ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مگر روزہ کہ وہ میرے ہی لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا (یعنی روزہ کی جو جزا ہے اسے میں ہی جانتا ہوں اور وہ روزہ دار کو میں خود ہی دوں اس بارے میں کوئی دوسرا یعنی فرشتہ بھی واسطہ نہیں ہو گا کیونکہ روزہ دار) اپنی خواہش اور اپنا کھانا صرف میرے لئے ہی چھوڑتا ہے (یعنی وہ میرے حکم کی بجا آوری میری رضاء و خوشنودی کی خاطر اور میرے ثواب کی طلب کے لئے روزہ رکھتا ہے) روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی تو روزہ کھولنے کے وقت اور دوسری خوشی (ثواب ملنے کی وجہ سے) اپنے پروردگار سے ملاقات کے وقت ، یاد رکھو روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے زنزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ لطف اور پسندیدہ ہے اور روزہ سپر ہے (کہ اس کی وجہ سے بندہ دنیا میں شیطان کے شر و فریب سے اور آخرت میں دوزخ کی آگ سے محفوظ رہتا ہے) لہٰذا جب تم میں سے کوئی شخص روزہ دار ہو تو وہ نہ فحش باتیں کرے اور نہ بے ہودگی کے ساتھ اپنی آواز بلند کرے اور اگر کوئی (نادان جاہل) اسے برا کہے یا اس سے لڑنے جھگڑنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ وہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
نیک عمل کے اجر کے سلسلے میں ادنیٰ درجہ دس ہے کہ نیکی تو ایک ہو مگر ثواب اس کا دس گناہ ملے، پھر اس کے بعد نیک عمل کرنے والے کے صدق خلوص پر انحصار ہوتا ہے کہ اس کی ریاضت و مجاہدہ اور اس کے خلوص و صدق نیت میں جتنی پختگی اور کمال بڑھتا رہتا ہے اسی طرح اس کے ثواب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ بعض حالات میں ایک نیکی پر سات سو گناہ ثواب ملتا ہے گویا یہ آخری درجہ ہے لیکن بعض مقامات و اوقات ایسے بھی ہیں جہاں کی جانے والی ایک نیکی اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب سے نوازی جاتی ہے چنانچہ منقول ہے کہ مکہ میں ایک نیک عمل کے بدلے میں ایک لاکھ نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ الاالصوم (مگر روزہ) سے ثواب کی اہمیت و فضیلت کی طرف اشارہ ہے کہ روزہ کا ثواب بے انتہاء اور لامحدود ہے جس کی مقدار سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا۔

یہ حدیث شیئر کریں