مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ روزے کا بیان ۔ حدیث 464

روزہ کی بے انتہا فضیلت کیوں؟

راوی:

روزہ اور اس کے ثواب کی اس فضیلت کے دو سبب ہیں اول تو یہ کہ روزہ دوسرے لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوتا ہے، دوسری عبادتوں کے برخلاف کہ ان میں یہ وصف نہیں ہے جتنی بھی عبادات ہیں وہ کسی نہ کسی طرح لوگوں کی نگاہوں کے سامنے آتی ہیں جب کہ روزہ ہی ایک ایسی عبادت ہے جس کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے سوا صرف روزہ دار ہی کو ہوتا ہے ۔ لہٰذا روزہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہوتا ہے کہ اس میں ریاء اور نمائش کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد فانہ لی کے ذریعے اسی طرف اشارہ فرمایا کہ روزہ خاص میرے ہی لئے ہے کیونکہ روہ تو صورۃ اپنے لئے وجود نہیں رکھتا جب کہ دوسری عبادتیں صورتا اپنے لئے وجود رکھتی ہیں۔
دوم یہ کہ روزہ میں نفس کشی اور جسم وبدن کا ہلکان ونقصان ہے نیز روزہ کی حالت میں انتہائی کرب وتکلیف کی صورتیں بھوک و پیاس پیش آتی ہیں اور ان پر صبر کرنا پڑتا ہے جب کہ دوسری عبادتوں میں نہ اتنی تکلیف ومشقت ہوتی ہے اور نہ اپنی خواہش وطبیعت پر اتنا جبر چنانچہ باری تعالیٰ نے اپنے ارشاد یدع شہوتہ کے ذریعے اسی طرف اشارہ فرمایا کہ روزہ دار اپنی خواہش کو چھوڑ دیتا ہے یعنی روزہ کی حالت میں جو چیزیں ممنوع ہیں وہ ان سب سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔
لفظ شہوتہ کے بعد لفظ طعامہ کا ذکر کیا تو تخصیص بعد تعمیم کے طور پر ہے یا پھر شہوت سے مراد تو جماع ہے اور طعام سے جماع کے علاوہ دوسری چیزیں مراد ہیں جو روزہ کو توڑنے والی ہوتی ہیں۔
افطار کے وقت روزہ دار کو خوشی دو وجہ سے ہوسکتی ہے یا تو اس لئے کہ وہی وہ وقت ہوتا ہے جب کہ روزہ دار اپنے آپ کو اللہ رب العزت کے حکم اور اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ محسوس کرتا ہے، یا پھر یہ کہ وہ عبادت کی توفیق اور اس کی نورانیت کی وجہ سے اپنے آپ کو مطمئن ومسرور محسوس کرتا ہے، جو ظاہر ہے کہ خوشی کا سبب ہے اس کے علاوہ دنیاوی اور جسمانی طور پر بھی یوں خوشی محسوس ہوتی ہے کہ دن بھر کی بھوک و پیاس کے بعد اسے کھانے پینے کو ملتا ہے۔
حدیث کے آخری جملے کے معنی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص روزہ دار کو برا بھلا کہے یا اس سے لڑنے کا ارادہ کرے تو وہ اس شخص کو انتقاما برا بھلا نہ کہے اور نہ اس سے لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہوجائے بلکہ اس شکص سے یہ کہے کہ میں روزہ دار ہوں اور یہ بات یا تو زبان سے کہے تاکہ دشمن اپنے ناپاک ارادوں سے بازرہے کیونکہ جب روزہ دار اپنے مقابل سے یہ کہے گا کہ میں روزہ دار ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں چونکہ روزہ دار ہوں اس لئے میرے لئے تو یہ جائز نہیں کہ میں تم سے لڑوں جھگڑوں اور جب میں خود لڑنے جھگڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں تو تمہارے لئے بھی یہ مناسب نہیں ہے کہ ایسی صورت میں تم مجھ سے لڑائی جھگڑے کا ارادہ کرو کیونکہ یہ اصول ومروت کے خلاف ہے ظاہر ہے کہ یہ انداز اور پیرایہ دشمن کو مجبور کرے گا کہ وہ اپنے گلط ارادوں سے باز رہے۔
یا اس کے یہ معنی ہوں کہ میں چونکہ روزہ دار ہوں اس لئے اس وقت تمہارے لئے زبان درازی مناسب اور لائق نہیں کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کے ذمہ اور اس کی حفاظت میں ہوں۔
یا پھر یہ کہ ایسے موقع پر روزہ دار اپنے دل میں یہ کہہ لے کہ میں روزہ دار ہوں میرے لئے یہ بات مناسب نہیں ہے کہ میں روزہ حالت میں کسی سے لڑائی جھگڑا کروں یا کسی کو اپنی زبان سے برا کہوں۔
لفظ " الاالصوم" کے سلسلے میں حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ حدیث کے بعض شارحین اس موقع پر کہتے ہیں کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ روزہ کی یہ خصوصیت کس وجہ سے ہے؟ تاہم ہمارے اوپر یہ بات واجب اور لازم ہے کہ بغیر کسی شک و شبہہ کے اس کی تصدیق کرے ہاں بعض محققین علماء نے اس خصوصیت کے کچھ اسباب بیان کئے ہیں چنانچہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ روزہ ہی وہ عبادت ہے جو ایام جاہلیت میں بھی اہل عرب کے یہاں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے مخصوص تھی یعنی جس طرح کفار و مشرکین سجدہ وغیرہ اللہ کے علاوہ دوسری چیزون کے لئے بھی کرتے تھے اسی طرح وہ روزہ میں بھی اللہ کے علاوہ کسی کو شریک نہیں کرتے تھے بلکہ روزہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے رکھتے تھے۔
اس طرح اس نکتہ کے ذریعے بھی اس کی خصوصیت کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے کہ درحقیقت جو شخص روزہ رکھتا ہے اور اس طرح وہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی و رضاء کی خاطر اپنا کھانا پینا اور دوسری خواہشات کو چھوڑ دیتا ہے تو وہ ایک طرح کی لطافت و پاکیزگی حاصل کرتا ہے اور گویا وہ اس بارے میں باری تعالیٰ کے اوصاف و خلق کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے بایں طور کہ جس طرح اللہ رب العزت کھانے پینے سے منزہ اور پاک ہے اس طرح بھی دن میں اپنے آپ کو دنیاوی خواہشات و علائق سے منزہ رکھتا ہے لہٰذا اس سبب سے روزہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے۔
عبرت خیز و عبرت آموز!
ابھی آپ نے اوپر پڑھا ہے کہ عرب کے مشرکین تک روزہ میں کسی کو اللہ کا شریک نہیں کرتے تھے ان کا روزہ بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے مخصوص قرار دیتے تھے لیکن اب روزہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں رہ گیا ہے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اب بعض بزرگوں کے نام پر اور ان کے لئے بھی روزہ رکھا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو گمراہی و ضلالت کے اس راستے سے بچائے اور صرف اپنی مرضیات تابع و پابند بنائے آمین۔

یہ حدیث شیئر کریں