مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ روزے کا بیان ۔ حدیث 465

ماہ رمضان کے فضائل وبرکات

راوی:

وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إذا كان أول ليلة من شهر رمضان صفدت الشياطين ومردة الجن وغلقت أبواب النار فلم يفتح منها باب الجنة فلم يغلق منها باب وينادي مناد : يا باغي الخير أقبل ويا باغي الشر أقصر ن ولله عتقاء من النار وذلك كل ليلة " . رواه الترمذي وابن ماجه

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنات کو قید کر دیا جاتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں پھر اس کا کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں پھر اس کا کوئی دروازہ بند نہیں رہتا اور اعلان کرنے والا فرشتہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اے بھلائی (یعنی نیکی و ثواب) کے طلب گار! اللہ کی طرف متوجہ ہو جا اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والے برائی سے باز آ جا کیونکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو آگ سے آزاد کرتا ہے یعنی اللہ رب العزت اس ماہ مبارک کے وسیلے میں بہت لوگوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد کرتا ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ تو بھی ان لوگوں میں شامل ہو جائے۔ اور یہ اعلان رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔ (ترمذی ابن ماجہ ، امام احمد نے بھی اس روایت کو ایک شخص سے نقل کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
ماہ رمضان کے شروع ہوتے ہی شیاطین کو اس لئے قید کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ روزہ داروں کو نہ بہکائیں اور ان کے دلوں وسوسوں اور گندے خیالات کا بیج نہ بوئیں چنانچہ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے ماہ رمضان میں اکثر گناہ گار گناہوں سے بچتے ہیں اور اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں البتہ بعض بد بخت ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس ماہ مبارک میں بھی گناہ و معصیت سے باز نہیں آتے تو اس کی وجہ وہ اثرات ہوتے ہیں جو رمضان سے قبل ایام میں شیطان کے بہکانے کی وجہ سے ان کے طبائع بد میں راسخ ہو جاتے ہیں یعنی چونکہ ان کے ذہن و فکر اور ان کی عملی قوت پہلے ہی سے شیطان کے زیر اثر ہوتی ہے اور ان کا نفس اس کا عادی ہو چکا ہوتا ہے اس لئے ایسے لوگ اپنی عادت سے مجبور ہو کر رمضان میں بھی گناہ و معصیت سے نہیں بچ پاتے ۔
اللہ کی طرف متوجہ ہو جا ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی بندگی اس کی عبادت اور اس کی رضا و خوشنودی کے کامون میں زیادہ سے زیادہ مشغول رہنے کی کوشش کر کیونکہ یہ وقت ایسا ہے کہ اگر تھوڑا بھی نیک عمل کیا جائے گا تو اس کا ثواب ملے گا اور معمولی درجہ کی نیکی بھی سعادت و نیک بختی کے اونچے درجے پر پہنچائے گی۔
اسی طرح برائی سے باز آ جا۔ کا مطلب یہ ہے کہ گناہ و معصیت کے راستے کو چھوڑ دے، نیکی و بہتری کی راہ اپنا لے اپنے کئے ہوئے گناہوں سے توبہ کر اور اللہ کی طرف اپنی توجہ لگا دے کیونکہ قبولیت دعا اور مغفرت کا یہ بہترین وقت ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں