مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ رویت ہلال کا بیان ۔ حدیث 480

یوم الشک کے روزہ کا مسئلہ

راوی:

وعن عمار بن ياسر رضي الله عنهما قال : " من صام اليوم الذي يشك فيه فقد عصى أبا القاسم صلى الله عليه و سلم " . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه والدارمي

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے یوم الشک کو روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)

تشریح
شعبان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ کی وجہ سے چاند نہیں دیکھا گیا مگر ایک شخص نے چاند دیکھنے کی شہادت دی اور اس کی شہادت قبول نہیں کی گئی اسی طرح دو فاسق لوگوں نے چاند دیکھنے کی گواہی دی اور ان کی گواہی قبول نہیں کی گئی اس کی صبح کو جو دن ہو گا یعنی تیس تاریخ کو یوم الشک (شک کا دن) کہلائے گا کیونکہ اس دن کے بارے میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع ہو گیا ہو اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع نہ ہوا ہو لہٰذا اس غیر یقینی صورت کی وجہ سے اسے شک کا دن کہا جاتا ہے ہاں اگر انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ نہ ہو اور کوئی بھی شخص چاند نہ دیکھے تو تیس تاریخ کو یوم الشک نہ کہیں گے۔
اس حدیث میں اسی دن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یوم الشک کو رمضان یا کسی واجب کی نیت سے روزہ رکھنا مکروہ ہے البتہ اس دن نفل روزہ رکھنے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے ، چنانچہ اگر کوئی شخص شعبان کی پہلی ہی تاریخ سے نفل روزہ رکھتا چلا آ رہا ہو یا تیس تاریخ اتفاق سے اس دن ہو جائے کہ جس میں کوئی شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے تو اس کے لئے اس دن روزہ رکھنا افضل ہو گا۔
اسی طرح یوم الشک کو روزہ رکھنا اس شخص کے لئے بھی افضل ہے جو شعبان کے آخری تین دنوں میں روزے رکھتا ہو اور اگر یہ صورتیں نہ ہوں تو پھر یوم الشک کا مسئلہ یہ ہے کہ خواص تو اس دن نفل کی نیت کے ساتھ روزہ رکھ لیں اور عوام دوپہر تک کچھ کھائے پئے بغیر انتظار کریں اگر چاند کی کوئی قابل قبول شہادت نہ آئے تو دوپہر کے بعد افطار کر لیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ کا یہ معمول نقل کیا جاتا ہے کہ یہ حضرات شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرتے اگر چاند دیکھ لیتے یا معتبر شہادت کے ذریعے رویت ہلال کا ثبوت ہو جاتا تو اگلے روز روزہ رکھتے ورنہ بصورت دیگر ابر و غبار وغیرہ سے مطلع صاف ہونے کی صورت میں روزہ نہ رکھتے ہاں اگر مطلع صاف نہ ہوتا تو روزہ رکھ لیتے تھے اور علماء فرماتے ہیں کہ اس صورت میں ان کا یہ روزہ نفل ہوتا تھا۔
خواص سے مراد وہ لوگ ہیں جو شک کے دن کے روزے کی نیت کرنا جانتے ہوں اور جو لوگ اس دن کے روزے کی نیت کرنا نہ جانتے ہوں انہیں عوام کہا جاتا ہے چنانچہ اس دن روزہ کی نیت یہ ہے کہ جو شخص اس دن کہ جس میں رمضان کے بارے میں شک واقع ہو رہا ہے روزہ رکھنے کا عادی نہ ہو وہ یہ نیت کرے کہ میں آج کے دن نفل روزے کی نیت کرتا ہوں اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اگر آج رمضان کا دن ہو تو یہ روزہ رمضان کا بھی ہے اس طرح نیت کرنی مکروہ ہے۔ کہ اگر کل رمضان کا دن ہو تو یہ روزہ رمضان میں محسوب ہو اور اگر رمضان کا دن نہ ہو تو نفل یا کسی اور واجب میں محسوب ہو۔ تاہم اگر کسی نے اس طرح کر لیا اور اس دن رمضان کا ہونا ثابت ہو گیا تو وہ روزہ رمضان ہی میں محسوب ہو گا ۔ اس کے برخلاف اگر کوئی شخص اس نیت کے ساتھ روزہ رکھے کہ اگر آج رمضان کا دن ہو گا تو میرا بھی روزہ ہو گا اور اگر رمضان کا دن نہیں ہو گا تو میرا روزہ بھی نہیں ہو گا۔ تو اس طرح نہ نفل کا روزہ ہو گا اور نہ رمضان کا ہو گا چاہے اس دن رمضان کا ہونا ہی ثابت کیوں نہ ہو جائے۔

یہ حدیث شیئر کریں