مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ نفل روزہ کا بیان ۔ حدیث 555

نفل روزے

راوی:

وعن أبي قتادة : أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال كيف تصوم فغضب رسول الله صلى الله عليه و سلم من قوله . فلما رأى عمر رضي الله عنهم غضبه قال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا نعوذ بالله من غضب الله وغضب رسوله فجعل عمر رضي الله عنهم يردد هذا الكلام حتى سكن غضبه فقال عمر يا رسول الله كيف بمن يصوم الدهر كله قال : " لا صام ولا أفطر " . أو قال : " لم يصم ولم يفطر " . قال كيف من يصوم يومين ويفطر يوما قال : " ويطيق ذلك أحد " . قال كيف من يصوم يوما ويفطر يوما قال : " ذاك صوم داود عليه السلام " قال كيف من يصوم يوما ويفطر يومين قال : " وددت أني طوقت ذلك " . ثم قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ثلاث من كل شهر ورمضان إلى رمضان فهذا صيام الدهر كله صيام يوم عرفة أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله والسنة التي بعده وصيام يوم عاشوراء أحتسب على الله أن يكفر السنة التي قبله " . رواه مسلم

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ کس طرح رکھتے ہیں؟ یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار ظاہر ہو گئے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو اس وقت مجلس میں حاضر تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصہ کی یہ کیفیت دیکھی تو فورا بول اٹھے کہ ہم راضی ہوئے اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کے نبی ہونے پر اور ہم اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ جملے بار بار کہتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہوا اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ اس شخص کے بارہ کیا حکم ہے جو ہمیشہ روزہ رکھے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس نے نہ روزہ رکھا اور نہ وہ بغیر روزہ رہا۔ یا فرمایا نہ روزہ رکھا اور نہ بغیر روزہ رہا۔ اس موقع پر راوی کو شک ہے کہ آپ نے لا صام ولا افطر یا لم یصم ولم یفطر فرمایا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ اس شخص کے بارہ میں کیا حکم ہے جو دو دن تو روزہ سے رہے اور ایک دن بغیر روزہ رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کوئی اس کی طاقت رکھتا ہے؟ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ اس شخص کے بارہ میں کیا حکم ہے جو ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن روزہ نہ رکھے؟ فرمایا یہ حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ اچھا اس شخص کے بارہ میں کیا حکم ہے جو ایک دن تو روزہ رکھے اور دو دن بغیر روزہ کے رہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت میسر آ جائے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت میسر آ جائے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک ہر مہینہ کے تین روزے ہمیشہ کے روزے کے برابر ہیں (یعنی ان کا ثواب ہمیشہ روزہ رکھنے کے ثواب کے برابر ہوتا ہے) اور (غیر حج کی حالت میں) عرفہ کا روزہ تو مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ اس روزہ کی وجہ سے اس سے پہلے سال کے گناہ دور کر دے گا اور اس کے بعد والے سال کے گناہ بھی دور کر دے گا یعنی یا تو اللہ تعالیٰ آئندہ سال گناہوں سے محفوظ رکھے گا یا یہ کہ اگر گناہ سرزد ہوں گے تو معاف کر دئیے جائیں اور یوم عاشورہ کے روزے کے بارہ میں بھی مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ اس روزہ کی بناء پر ایک سال پہلے کے گناہ دور کر دے گا۔ (مسلم)

تشریح
سائل کو تو چاہئے تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے بارہ میں سوال کرتا کہ میں نفل روزہ کیونکر اور کب کب رکھوں؟ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے احول و کوائف کے مطابق اسے کوئی جواب دیتے مگر وہ اپنے بارہ میں پوچھنے کی بجائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے بارہ میں پوچھ بیٹھا جو ظاہر ہے کہ آداب نبوت کے نہ صرف خلاف ہی تھا بلکہ یہ ایک حد تک گستاخی بھی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غصہ کے آثار ظاہر ہو گئے پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احوال و کوائف بالکل دوسری نوعیت کے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عبادت میں کثرت و قلت کے بھی اسرار و مصالح تھے اور ظاہر ہے کہ اسرار و مصالح ہر شخص کے افعال و عبادات میں نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت زیادہ روزے نہیں رکھتے تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کے مسائل و مصالح ازواج مطہرات کے حقوق کی ادائیگی اور باہر سے آنے والے مہمانوں کی خاطر و مدارات اور ان کی دیکھ بھال میں مشغول رہا کرتے تھے ایسی صورت میں یہ ممکن نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نفل روزہ کثرت سے رکھتے۔
من یصوم الدہر کلہ (جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے اس کے بارہ میں کیا حکم ہے؟ ) سائل درحقیقت یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھنا چاہتا تھا مگر چونکہ اس نے اسلوب غلط اختیار کیا اس لئے اسی سوال کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس انداز سے نہایت ہی ادب و عاجزی کے ساتھ پوچھا کہ جو شخص ہمیشہ نفل روزہ رکھتا ہے اس کے بارہ میں شریعت کیا کہتی ہے؟ آیا وہ شخص اپنے اس عمل کی وجہ سے شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہے یا نہیں؟ اس سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو جملہ لا صام ولا افطر ارشاد فرمایا اس کے بارہ میں علماء لکھتے ہیں کہ یہ جملہ یا تو ایسے شخص کے لئے بطور تنبیہ و عابد ہے یا پھر یہ کہ اس شخص کے حال کی خبر ہے کہ نہ تو اس شخص نے روزہ رکھا کیونکہ اس طرح روزہ رکھنا شریعت کے حکم کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی وہ بغیر روزہ رہا کیونکہ کھانا پینا اور تمام چیزیں اس نے ترک کئے رکھیں۔
حضرت امام شافعی اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ارشاد اس شخص کے حق میں ہے جو ممنوع روزے بھی رکھے یعنی تمام سال روزے رکھے حتیٰ کی عیدین اور ایام تشریق میں بھی روزے رکھنا چھوڑے ہاں اگر کوئی شخص ان ممنوع ایام میں روزے نہ رکھے تو یہ ارشاد اس کے حق میں نہیں ہو گا او وہ ان ایام کے علاوہ بقیہ تمام دنوں میں روزے رکھے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ کیونکہ حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان ممنوع ایام کے علاوہ بقیہ تمام دنوں میں روزے رکھتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں منع فرماتے تھے یا پھر یہ کہ ہمیشہ روزہ رکھنے کی اس ممانعت کی علت یہ ہے کہ اس طرح روزے رکھنا، جسم انسانی کو ضعیف و نا تو اں کر دیتا ہے جس کی بناء پر ایسا شخص جہاد اور دوسرے حقوق کی ادائیگی سے عاجز ہو جاتا ہے لہٰذا ہمیشہ روزہ رکھتا اگر کسی شخص کو ضعف و نا تو انی میں مبتلا نہ کرے تو اس کے لئے ہمیشہ روزے رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے حنفی محقق علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس سے ضعف و نا تو انی لاحق ہو جاتی ہے اسی طرح فتاویٰ عالمگیری اور درمختار میں بھی یہی لکھا ہے کہ صوم دہر (ہمیشہ روزہ رکھنا ) مکروہ ہے۔
ویطیق ذالک احد (کوئی اس کی طاقت رکھتا ہے؟ ) کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص دو دن روزہ سے اور ایک دن بغیر روزہ رہنے پر قادر ہو اور اس میں اتنی طاقت ہو کہ وہ اس طرح روزہ رکھ سکے تو اس کے لئے کوئی مضائقہ نہیں یا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح روزہ رکھنا افضل ہے۔
ذالک صوم داؤد (یہ حضرت داؤد کا روزہ ہے) کا مطلب یہ ہے کہ روزہ رکھنے کا یہ طریقہ نہایت معتدل ہے اور اس میں عبادت و عادت کی رعایت بھی ہے اسلام چونکہ تمام مذاہب آسمانی کا ایک حسین سنگم ہے اس لئے مذہب نے ہر معاملہ میں توازن اور اعتدال کی راہ دکھائی ہے اس کے نظریات و اعمال میں نہ افراط ہے نہ تفریط چنانچہ اس لئے بعض مفکرین اسلام نے یہ کلیہ بیان کیا ہے کہ حصول علم میں اس انداز سے سعی و کوشش کرنی چاہئے کہ اس کی وجہ سے عمل کی راہیں مسدود نہ ہو جائیں اور اعمال میں بھی اس طریقہ سے مشغولیت نہ ہو کہ اس کی وجہ سے علم کی روشنی حاصل نہ ہو سکے حاصل اس کلیہ کا یہ ہے کہ حصول علم کی بہت زیادہ سعی و کوشش عمل سے نہ روک دے اور عمل میں بے مشغولیت علم سے بے بہرہ نہ کر دے بلکہ اعتدال اور توازن کے ساتھ دونوں راہوں کو اپنایا جائے اسی لئے کہا گیا ہے کہ خیر الامور اوسطہا وشرہا تفریطہا وافراطہا یعنی کسی چیز کی بھلائی و بہتری اس کی درمیانی راہ میں پوشیدہ ہے اور اس کی برائی حد سے زیادہ زیادتی اور حد سے زیادہ کمی کو اختیار کرنے میں ہے نیز اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ ۔ افضل الصیام صوم داؤد علی نبینا وعلیہ السلام یعنی نفل روزوں میں سب سے بہتر روزہ حضرت داؤد علیہ السلام کا ہے۔
وددت انی طوقت (میں اسے پسند کرتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت میسر آ جائے) یعنی یہ میری عین پسند ہے کہ حق تعالیٰ مجھے اتنی طاقت اور قوت عطا فرمائے کہ ہر چوتھے دن روزہ رکھوں یعنی ایک دن تو روزہ رکھوں اور دو دن بغیر روزہ رہو اور اس سلسلہ میں دوسرے حقوق اور مسلمانوں کے مصالح میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ گویا اس ارشاد سے اس طرف اشارہ ہے کہ میں اس کی طاقت نہیں رکھتا الاّ یہ کہ حق تعالیٰ کی طرف سے میرے اندر یہ طاقت و قوت و دیعت فرما دی جائے حاصل یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نفل روزہ رکھنے کے سلسلہ میں اس صورت کو بھی پسند فرمایا اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بسبب عدم طاقت اس پر عمل نہیں فرمایا۔
ہر مہینہ کے تین روزے سے مراد ایام بیض یعنی ہر مہینہ کی تیرہویں ، چودہویں اور پندرہویں تاریخ کے روزے ہیں مگر بعض حضرات کہتے ہیں کہ ہر مہینہ کی کسی بھی تین تاریخوں کے روزے مذکورہ ثواب کے حامل ہیں اور یہی قول صحیح بھی معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک روایت نے جو آگے آ رہی ہے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں