مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ فضائل قرآن کا بیان ۔ حدیث 628

قرآن سننے کے لئے فرشتوں کا اشتتیاق واژدحام

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري أن أسيد بن حضير قال : بينما هو يقرأ من الليل سورة البقرة وفرسه مربوطة عنده إذ جالت الفرس فسكت فسكتت فقرأ فجالت الفرس فسكت فسكتت الفرس ثم قرأ فجالت الفرس فانصرف وكان ابنه يحيى قريبا منها فأشفق أن تصيبه فلما آخره رفع رأسه إلى السماء فإذا مثل الظلة فيها أمثال المصابيح فلما أصبح حدث النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " اقرأ يا ابن حضير اقرأ يا ابن حضير " . قال فأشفقت يا رسول الله أن تطأ يحيى وكان منها قريبا فرفعت رأسي فانصرفت إليه ورفعت رأسي إلى السماء فإذا مثل الظلة فيها أمثال المصابيح فخرجت حتى لا أراها قال : " وتدري ما ذاك ؟ " قال لا قال : " تلك الملائكة دنت لصوتك ولو قرأت لأصبحت ينظر الناس إليها لا تتوارى منهم " . متفق عليه . واللفظ للبخاري وفي مسلم : " عرجت في الجو " بدل : " خرجت على صيغة المتكلم "

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں روایت کرتے تھے کہ ایک دن جب کہ وہ (یعنی اسید) رات میں سورت بقرہ پڑھ رہے تھے ان کا گھوڑا جو ان کے قریب ہی بندھا تھا اچانک اچھلنے کودنے لگا چنانچہ انہوں نے پڑھنا بند کر دیا (تاکہ دیکھیں کیوں اچھل کود رہا ہے) گھوڑنے بھی اچھل کود بند کر دی۔ (اسید نے یہ سوچ کر کہ یونہی اچھل کود رہا ہو گا) پھر پڑھنا شروع کر دیا گھوڑا بھی پھر اچھلنے کودنے لگا وہ پھر رک گئے تو گھوڑا بھی رک گیا، پھر جب انہوں نے پڑھنا شروع کیا تو گھوڑے نے اچھل کود شروع کی (اب انہیں احساس ہوا کہ گھوڑے کی اچھل کود یوں ہی نہیں ہے بلکہ اس کی خاص وجہ ہے) چنانچہ انہوں نے پڑھنا موقوف کر دیا (اتفاق سے) ان کا بچہ جس کا نام یحییٰ تھا گھوڑے کے قریب ہی تھا انہیں خوف ہوا کہ کہیں گھوڑا (اس اچھل کود میں) اس بچہ کو کوئی تکلیف نہ پہنچا دے اس لئے وہ اٹھ کر گھوڑے کے پاس گئے تاکہ بچہ کو وہاں سے ہٹا دیں جب انہوں نے بچہ کو وہاں سے ہٹایا اور ان کی نظر آسمان کی طرف اٹھی تو اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ بادل کی مانند کوئی چیز ہے جس میں چراغ سے جل رہے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو اسید نے یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ابن حضیر تم پڑھتے رہتے ۔ اسید نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں گھوڑا یحییٰ کو کچل نہ ڈالے کیونکہ یحییٰ گھوڑے کے قریب ہی تھا چنانچہ جب میں یحییٰ کی طرف پھرا اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی چیز بادل کی مانند ہے جس میں چراغ سے جل رہے ہیں پھر میں تحقیق حال کے لئے اپنے گھر سے باہر نکلا مگر وہ چراغاں مجھے پھر نظر نہیں آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جانتے ہو وہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ نہیں! فرمایا وہ فرشتے تھے جو تمہاری قرأت کی آواز سننے کے لئے قریب آ گئے تھے اگر تم اسی طرح پڑھتے رہتے تو اسی طرح صبح ہو جاتی اور لوگ فرشتوں کو دیکھتے اور وہ فرشتے لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل نہ ہوتے۔ اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے مگر الفاظ بخاری کے ہیں۔ مسلم کی روایت میں فخرجت کے بجائے عرجت فی الجو (یعنی وہ چیز جو زمین و آسمان کے درمیان ہوا میں چڑھ گئی ) کے الفاظ ہیں۔

تشریح
گھوڑے کی اچھل کود کی وجہ یہ تھی کہ جب حضرت اسید قرآن کریم پڑھ رہے تھے تو قرأت سننے کے لئے فرشتے نیچے آئے تھے اور ان کو دیکھ کر گھوڑا بدکتا اور اچھلتا کودتا تھا اسی وجہ سے جب حضرت اسید تلاوت بند کر دیتے تھے اور فرشتے اوپر چلے جاتے تھے تو گھوڑا بھی اچھل کود سے رک جاتا تھا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی اقرأ یا ابن حضیر (ابن حضیر تم پڑھتے رہتے) میں لفظ اقرأ کے معنی ابن حجر نے یہ لکھے ہیں کہ اس سورت کو ہمیشہ پڑھتے رہو جو ایسی عجیب و غریب حالت کے پیش آنے کا سبب ہے اگر آئندہ بھی کبھی اس سورت کو پڑھنے کے دوران ایسی صورت پیش آئے تو چھوڑنا مت بلکہ پڑھتے رہنا۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس لفط کا مقصد زمانہ ماضی میں طلب زیادتی ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد گرامی کا مقصد گویا یہ تھا کہ تم نے اس وقت پڑھنا کیوں چھوڑ دیا بلکہ پڑھنے میں اور زیادتی کیوں نہ کی تمہیں چاہئے تھا کہ تم اس صورت میں زیادہ سے زیادہ پڑھتے رہتے! آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کے جواب میں حضرت اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ کہا (یعنی یا رسول اللہ میں اس بات سے ڈرا الخ) اس سے بھی یہی مفہوم واضح ہوتا ہے چنانچہ یہاں ترجمہ علامہ طیبی کی وضاحت کے تحت ہی کیا گیا ہے۔
بادل کی مانند کوئی چیز ہے، وجہ تشبیہ ہے کہ ملائکہ قرآن سننے کے لئے اتنا اژدحام کرتے ہیں کہ کوئی اگر انہیں دیکھے تو ایسا محسوس ہو کہ پردہ کی مانند کوئی چیز ہے جو دیکھنے والے اور آسمان کے درمیان حائل ہو گئی ہے حضرت اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی چیز کو باد سے تعبیر کیا اور اس میں جو چراغ سے جل رہے تھے وہ دراصل ان فرشتوں کے منہ تھے جو چراغ کی مانند روشن و منور تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں