مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ دعاؤں کا بیان ۔ حدیث 747

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان رحمت

راوی:

وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اللهم إني اتخذت عندك عهدا لن تخلفنيه فإنما أنا بشر فأي المؤمنين آذيته شتمته لعنته جلدته فاجعلها له صلاة وزكاة وقربة تقربه بها إليك يوم القيامة "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روای ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارگاہ حق میں یوں دعا کی کہ اے میرے پروردگار ! میں نے تیری خدمت میں ایک درخواست پیش کی ہے تو مجھے اس کی قبولیت سے نواز اور مجھے نا امید نہ کر۔ یعنی میں امیدوار کرم ہوں کہ میری درخواست ضرور ہی منظور ہو گی اور وہ درخواست یہ ہے کہ میں ایک انسان ہوں لہٰذا جس مومن کو میں نے کوئی ایذاء پہنچائی ہو بایں طور کہ میں نے اسے برا بھلا کہا ہو میں نے اس پر لعنت کی ہو میں نے اسے مارا ہو تو ان سب چیزوں کو تو اس مومن کے حق میں رحمت کا سبب گناہوں سے پاکی کا ذریعہ اور اپنے قرب کا باعث بنا دے کہ تو ان چیزوں کے سبب اس کو قیامت کے دن اپنا قرب بخشے ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
لفظ فانما انا بشر تمہید ہے عذر کی کہ میں بھی ایک انسان ہوں کبھی کبھی بتقاضائے بشریت کسی پر خفا بھی ہو جاتا ہوں۔
لفظ فای المومنین، اس چیز کی تفصیل اور بیان ہے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارشاد اللہم اتخذت الخ کے ذریعہ بارگاہ حق جل شانہ میں درخواست پیش کی بہر کیف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعا کا حاصل یہ ہے کہ جس مومن کو مجھ سے کوئی بھی ایذاء پہنچ جائے تو اس ایذاء کو اس کے حق میں رحمت وغیرہ کا سبب بنا دے۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کسی چیز کی طلب میں بہت مبالغہ سے کام لیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن پکڑ کر کھڑی ہو گئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اس طرز عمل پر فرمایا کہ : قطع اللہ یدک۔ اللہ تعالیٰ تیرا ہاتھ کاٹے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ بات بہت محسوس ہوئی۔ وہ فورا آپ کا دامن چھوڑ کر ہٹ گئیں اور اپنے حجرہ میں آخر بہت ہی رنجیدہ ملول اور غصہ میں بھر کر بیٹھ گئیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ کیفیت دیکھی تو اس وقت آپ نے ان کو خوش کرنے کے لئے یہ کہا۔ اللہم انی اتخذت عندک عہدا الخ۔
لہٰذا علماء لکھتے ہیں کہ جو شخص کسی کے لئے بد دعا کر بیٹھے تو اس کے لئے مسنون یہ ہے کہ وہ اس بد دعا کے بدلہ میں مذکورہ بالا دعا بھی ضرور کرے۔

یہ حدیث شیئر کریں