مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ دعاؤں کا بیان ۔ حدیث 750

تھک کر دعا مانگنا نہ چھوڑو

راوی:

وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " يستجاب للعبد ما لم يدع بإثم أو قطيعة رحم ما لم يستعجل " . قيل : يا رسول الله ما الاستعجال ؟ قال : " يقول : قد دعوت وقد دعوت فلم أر يستجاب لي فيستحسر عند ذلك ويدع الدعاء " . رواه مسلم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بندے کی دعا شرائط قبولیت کے بعد قبول کی جاتی ہے جب تک وہ گناہ کی یا ناطہ توڑنے کی دعا نہیں مانگتا اور جب تک کہ جلدی نہیں کرتا ۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ جلدی کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دعا مانگنے والا بار بار کہنے لگے کہ میں نے دعا مانگی یعنی اکثر میں نے دعا مانگی لیکن میں نے اسے قبول ہوتے نہیں دیکھا۔ اور پھر وہ تھک کر بیٹھ جائے اور دعا مانگنی ہی چھوڑ دے۔ (مسلم)

تشریح
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قبولیت دعا کے لئے جہاں جزم ویقین اور اللہ کی ذات پر پورا بھروسہ شرط ہے وہیں یہ بات بھی ضروری ہے کہ دعا ان ہی چیزوں کے لئے مانگی جائے جو عادتا مانگی جاتی ہوں اور مباح ہوں، لہٰذا یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ مومن کی دعا اسی وقت قبول ہوتی ہے جب کہ وہ نہ گناہ کی کوئی چیز طلب کرے اور نہ ناطہ توڑنے کی دعا کرے اور نہ جلد بازی سے کام لے۔
گناہ کی چیز مانگنے کا مطلب یہ کہ کوئی شخص یہ دعا مانگنے لگے کہ اے اللہ! مجھے فلاں شخص کو (جو مسلمان ہے) قتل کر دینے کی طاقت عطا فرما، یا یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شراب یا کوئی حرام و غیر حلال چیز عطا کر یا یہ کہے کہ اے اللہ فلاں شخص کو بخش دے درآنحالیکہ اس بارہ میں یقین ہے کہ وہ کافر مرا ہے۔، ظاہر ہے اس قسم کی دعا مانگنا اور پھر ان کی قبولیت کی توقع ہی رکھنا دیدہ دلیری ہی کہا جا سکتا ہے اس طرح محال اور غیر ممکن الوقوع چیزوں کی دعا مانگنا اور ان کی قبولیت کی امید رکھنا بھی انتہائی حماقت اور بے وقوفی کی بات ہے مثلا کوئی عقل کا اندھا یہ دعا مانگے کہ اے اللہ! تو مجھے دنیا ہی میں حالت بیداری میں اپنا دیدار عطا فرما۔ ناطہ توڑنے کی دعا، کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بد باطن شخص یہ دعا مانگنے لگے کہ اے اللہ! مجھ میں اور میرے باپ میں جدائی اور تفریق کر دے ۔ یہ حدیث کا مفہوم کے مطابق مومن کی ایسی غیر ایمانی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات بندہ مومن کی شان کے لائق نہیں ہے کہ اگر قبولیت دعا میں تاخیر محسوس ہو تو تھک کر بیٹھ جائے اور دعا مانگنا ہی چھوڑ دے۔ کیونکہ دعا بھی عبادت ہے اور عبادت سے اس طرح اکتاہٹ یا دل گرفتگی مومن کے لئے کسی بھی حال میں مناسب نہیں ہے۔ پھر یہ کہ قبولیت دعا میں تاخیر یا تو اس لئے ہوتی ہے کہ اس کا وقت نہیں آتا کیونکہ ازل ہی میں ہر چیز کے وقوع اور تکمیل کا ایک وقت مقرر ہے جب تک وہ وقت نہیں آتا وہ چیز بھی وقوع پذیر نہیں ہوتی یا یہ دعا مانگنے والا جو دعا مانگتا ہے اس کی تقدیر میں اس کی دعا کا اس دنیا میں قبول ہونا لکھا نہیں ہوتا اس صورت میں اسے اس کے بدلہ میں آخرت کا ثواب عطا کیا جاتا ہے یا پھر قبولیت میں تاخیر اس لئے ہوتی ہے کہ دعا مانگنے میں پوری عاجزی و انکساری، سچی لگن اور تڑپ اور کمال عبودیت کا اظہار کرتا رہے کیونکہ دعا میں ان چیزوں کو اختیار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ بہت پسند کرتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں