مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ ذکراللہ اور تقرب الی اللہ کا بیان ۔ حدیث 783

ذکر کرنے والوں کی فضیلت

راوی:

وعن أبي هريرة قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم يسير في طريق مكة فمر على جبل يقال له : جمدان فقال : " سيروا هذا جمدان سبق المفردون " . قالوا : وما المفردون ؟ يا رسول الله قال : " الذاكرون الله كثيرا والذاكرات " . رواه مسلم

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے راستوں پر چلے جا رہے تھے کہ ایک پہاڑ کے پاس سے گزرے جس کا نام جمدان تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فرمایا چلے چلو یہ جمدان ہے، مفردون سبقت لے گئے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مفردون کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ مرد جو اللہ کو بہت یاد کریں۔ اور وہ عورتیں جو اللہ کو بہت یاد کریں۔ (مسلم)

تشریح
ماالمفردون۔ (مفردون کون ہیں) درحقیقت صحابہ نے صفت کے بارہ میں سوال کیا کہ مفردون کی صفت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مذکورہ بالا جواب کے ذریعہ مفردون کی صفت کی طرف اشارہ کیا کہ حقیقی تنہائی جو لائق اعتبار ہے وہ اللہ کی یاد کے لئے نفس کی تنہائی ہے۔
منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے آتے ہوئے اپنے رفقاء سمیت حمدان پہاڑ کے پاس پہنچے جو مدینہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ہے تو صحابہ کو اپنے گھر جلد سے جلد پہنچنے کا اشتیاق ہوا ۔چنانچہ بعض صحابہ اپنے بقیہ ہم قافلہ لوگوں سے جدا ہو کر تیزی سے آگے بڑھ گئے تاکہ وہ دوسروں سے پہلے ہی اپنے وطن پہنچ جائیں جو صحابہ پیچھے رہ گئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ گھر قریب آ پہنچا ہے جلد چلو کیونکہ مفردون (یعنی قافلہ سے الگ ہو جانے والے ) آگے پہنچ گئے ہیں اسی موقع پر صحابہ نے مفردون کی صفت پوچھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو جواب دیا اس کا حاصل یہ تھا کہ ان مفردون (یعنی اس وقت ہم سے آگے نکل گئے ہیں) کے بارہ میں کیا پوچھتے ہو؟ ان کا مطلب تو ظاہر ہی ہے کہ یہ لوگ گھر جلد پہنچنے میں ہم سے سبقت لے گئے ان لوگوں کے بارہ میں پوچھو جو نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں تو سنو کہ نیکیوں میں سبقت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر کے لئے تنہاء اور علیحدہ کرتے ہیں یعنی وہ لوگوں سے منقطع ہو کر اور گوشہ نشینی اختیار کر کے اکثر ذکر اللہ میں مشغول رہتے ہیں۔
اللہ کو بہت یاد کرنے سے مراد یہ ہے کہ بغیر کسی غفلت و کوتاہی کے ذکر اللہ پر ہمیشگی اختیار کرے اگر کوئی غفلت و کوتاہی ہو بھی جائے تو اسے فورا ختم کر کے ذکر اللہ میں مشغول ہو جائے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ نماز کے بعد اور صبح وشام سوتے بیٹھے اور اسی طرح حدیث میں منقول دوسرے مواقع پر ذکر کرنے سے کثرت ذکر کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں