مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ ذکراللہ اور تقرب الی اللہ کا بیان ۔ حدیث 788

اہل ذکر کو فرشتے ڈھونڈتے پھرتے ہیں

راوی:

وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن لله ملائكة يطوفون في الطرق يلتمسون أهل الذكر فإذا وجدوا قوما يذكرون الله تنادوا : هلموا إلى حاجتكم " قال : " فيحفونهم بأجنحتهم إلى السماء الدنيا " قال : " فيسألهم ربهم وهو أعلم بهم : ما يقول عبادي ؟ " قال : " يقولون : يسبحونك ويكبرونك ويحمدونك ويمجدونك " قال : " فيقول : هل رأوني ؟ " قال : " فيقولون : لا والله ما رأوك " قال فيقول : كيف لو رأوني ؟ قال : " فيقولون : لو رأوك كانوا أشد لك عبادة وأشد لك تمجيدا وأكثر لك تسبيحا " قال : " فيقول : فما يسألون ؟ قالوا : يسألونك الجنة " قال : " يقول : وهل رأوها ؟ " قال : " فيقولون : لا والله يا رب ما رأوها " قال : " فيقول : فكيف لو رأوها ؟ " قال : " يقولون : لو أنهم رأوها كانوا أشد حرصا وأشد لها طلبا وأعظم فيها رغبة قال : فمم يتعوذون ؟ " قال : " يقولون : من النار " قال : " يقول : فهل رأوها ؟ " قال : يقولون : " لا والله يا رب ما رأوها " قال : " يقول : فكيف لو رأوها ؟ " قال : " يقولون لو رأوها كانوا أشد منها فرارا وأشد لها مخافة " قال : " فيقول : فأشهدكم أني قد غفرت لهم " قال : " يقول ملك من الملائكة : فيهم فلان ليس منهم إنما جاء لحاجة قال : هم الجلساء لا يشقى جليسهم " . رواه البخاري
وفي رواية مسلم قال : " إن لله ملائكة سيارة فضلا يبتغون مجالس الذكر فإذا وجدوا مجلسا فيه ذكر قعدوا معهم وحف بعضهم بعضا بأجنحتهم حتى يملأوا ما بينهم وبين السماء الدنيا فإذا تفرقوا عرجوا وصعدوا إلى السماء قال : فيسألهم الله وهو أعلم : من أين جئتم ؟ فيقولون : جئنا من عند عبادك في الأرض يسبحونك ويكبرونك ويهللونك ويمجدونك ويحمدونك ويسألونك قال : وماذا يسألوني ؟ قالوا : يسألونك جنتك قال : وهل رأوا جنتي ؟ قالوا : لا أي رب قال : وكيف لو رأوا جنتي ؟ قالوا : ويستجيرونك قال : ومم يستجيروني ؟ قالوا : من نارك قال : وهل رأوا ناري ؟ قالوا : لا . قال : فكيف لو رأوا ناري ؟ قالوا : يستغفرونك " قال : " فيقول : قد غفرت لهم فأعطيتهم ما سألوا وأجرتهم مما استجاروا " قال : " يقولون : رب فيهم فلان عبد خطاء وإنما مر فجلس معهم " قال : " فيقول وله غفرت هم القوم لا يشقى بهم جليسهم "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے کتنے ہی فرشتے (مسلمانوں کے ) راستے پر پھرتے ہیں اور ذکر کرنے والوں کو ڈھونڈتے ہیں تاکہ ان سے ملیں اور ان کا ذکر سنیں چنانچہ جب وہ ان لوگوں کو پا لیتے ہیں جو ذکر الٰہی میں مشغول رہتے ہیں تو وہ آپس میں ایک دوسرے کو پکار کر کہتے ہیں کہ اپنے مطلوب کی طرف(یعنی اہل ذکر سے ملاقات اور ان کا ذکر سننے کے لئے ( جلدی آ جاؤ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کے بعد وہ فرشتے ان لوگوں کو اپنے پروں سے آسمان دنیا تک گھیر لیتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان فرشتوں سے ان کا پروردگار ان لوگوں کے بارہ میں پوچھتا ہے کہ میرے بندے کیا کہتے ہیں حالانکہ پروردگار ان فرشتوں سے کہیں زیادہ ان لوگوں کے بارہ میں جانتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری پاکی کی تسبیح کرتے ہیں تجھے یاد کرتے ہیں تیری بڑائی بیان کرتے ہیں ، تیری تعریف کرتے ہیں اور بزرگی وعظمت کے ساتھ تجھے یاد کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ ان فرشتوں سے پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کے جواب میں فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں اللہ کی قسم انہوں نے تجھے نہیں دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان فرشتوں سے کہتا ہے کہ اچھا اگر وہ مجھے دیکھتے تو پھر ان کی کیفیت کیا ہوتی؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرشتے کہتے ہیں کہ اگر وہ تجھے دیکھتے تو پھر وہ تیری عبادت بہت ہی کرتے ، بزرگی وعظمت کے ساتھ تجھے بہت ہی یاد کرتے، اور تیری تسبیح بہت ہی کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تجھ سے جنت مانگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ کیا انہوں نے جنت کو دیکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں اے پروردگار انہوں نے جنت کو نہیں دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ اچھا اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو جنت کے لئے ان کی حرص کہیں زیادہ ہوتی ، اس کے لئے ان کی خواہش وطلب کہیں زیادہ ہوتی اور اس کی طرف ان کی رغبت کہیں زیادہ ہوتی ۔ کیونکہ کسی چیز کے بارہ محض علم ہونا اس کے دیکھنے کے برابر نہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ اچھا وہ پناہ کس چیز سے مانگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کیا انہوں نے دوزخ کو دیکھا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ نہیں ہمارے پروردگار اللہ کی قسم! انہوں نے دوزخ کو نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ اگر وہ دوزخ کو دیکھ لیتے تو پھر ان کی کیفیت کیا ہوتی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے دوزخ کو دیکھ لیا ہوتا تو وہ اس سے بہت ہی بھاگتے (یعنی ان چیزوں سے بہت ہی دور رہتے جو دوزخ میں ڈالے جانے کا سبب بنتے ہیں اور ان کے دل کہیں زیادہ ڈرنے والے ہوتے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں تمہیں اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ میں نے انہیں بخش دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔ یہ سن کر ان فرشتوں میں سے ایک فرشتہ کہتا ہے کہ ذکر کرنے والوں میں وہ فلاں شخص ذکر کرنے والا نہیں ہے کیونکہ وہ اپنے کسی کام کے لئے آیا تھا پھر وہ وہیں ذکر کرنے والوں کے پاس بیٹھ گیا اس لئے تو وہ اس مغفرت کی بشارت کا مستحق نہیں اللہ تعالیٰ اس سے فرماتا ہے کہ اہل ذکر ایسے بیٹھنے والے ہیں کہ ان کا ہمنشین بے نصیب نہیں ہوتا۔ (بخاری)
اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے کتنے ہی فرشتے ایسے ہیں جو پھرنے والے اور زیادہ (یعنی اعمال لکھنے والوں وغیرہ کے علاوہ ہیں کہ ان کا مقصد صرف ذکر کے حلقوں میں حاضری ہے) چنانچہ وہ فرشتے ذکر کی مجلسیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں جب وہ کسی ایسی مجلس کو پا لیتے ہیں جس میں اکثر ذکر ہی ہوتا ہے تو وہ اس میں بیٹھ جاتے ہیں اس وقت وہ فرشتے آپس میں ایک دوسرے کو اپنے پروں میں گھیر لیتے ہیں تاکہ ذکر والوں اور آسمان کے درمیان فرشتے ہی فرشتے بھر جائیں جب ذکر سے فراغت کے بعد مجلس برخاست ہوتی ہے تو وہ فرشتے بھی اوپر چڑھتے ہیں اور ساتویں آسمان پر پہنچ جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم کہاں سے آئے ؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ ان کے بارے میں خوب جانتا ہے کہ وہ کہاں سے آئے ہیں ۔ فرشتے کہتے ہیں کہ ہم تیرے ایسے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو زمین پر ہیں تیری تسبیح کرتے ہی تیرا کلمہ پڑھتے ہیں تجھے بزرگی وعظمت کے ساتھ یاد کرتے ہیں اور تجھ سے مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت مانگتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کیا انہوں نے میری جنت دیکھی ہے ۔ فرشتے کہتے ہیں کہ نہیں پروردگار! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تیری پناہ بھی مانگتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وہ میری پناہ کس چیز سے مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ تیری آگ سے پناہ مانگتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا انہوں نے میری آگ کو دیکھا؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ نہیں! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر وہ میری آگ کو دیکھ لیتے تو پھر ان کی کیا کیفیت ہوتی ؟ فرشتے کہتے ہیں وہ تجھ سے بخشش بھی طلب کرتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے یہ سن کر عرض کرتے ہیں کہ پروردگار اس میں فلاں بندہ تو بہت ہی گناہ گار ہے تو وہ وہاں سے صرف اپنے کام سے گزر رہا تھا کہ ان کے پاس بیٹھ گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اسے بخش دیا۔ کیونکہ وہ ذکر کرنے والے ایسے لوگ ہیں کہ جن کے سبب سے اور جن کی برکت کی وجہ سے ان کا ہمنشین بے نصیب نہیں ہوتا۔

تشریح
ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم کائنات کے ایک ذرہ پر حاوی ہے وہ ایک ایک فرد کے ایک ایک لمحہ کے حالات کی واقفیت رکھتا ہے اس لئے اس بات کا تو سوال ہی پید انہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ذکر کرنے والے بندوں کے بارہ میں جو کچھ پوچھتا ہے وہ علم حاصل کرنے کے لئے پوچھتا ہے بلکہ وہ جاننے کے باوجود محض الزاما فرشتوں سے سوال کرتا ہے تاکہ ان پر ابن آدم کی کمال عبدیت ظاہر ہو کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت یہ فرشتے ہی تو تھے جنہوں نے کہا تھا کہ پروردگار تو آدم اور ابن آدم کو کیوں پیدا کرتا ہے یہ تو دنیا میں سوائے فسق فساد کے اور کچھ کریں گے ہی نہیں۔ تیری تسبیح اور تقدیس تو بس ہم ہی کر سکتے ہیں اور وہ ہم کرتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ان فرشتوں کو اس قسم کے سوال کر کے ان پر ابن آدم کی بزرگی کو ظاہر کرتا ہے اور اس طرح وہ ان فرشتوں کو بتانا چاہتا ہے کہ تم نے دیکھا جس مخلوق کے بارہ میں تم غلط گمان رکھتے تھے وہی مخلوق اب کس طرح میری عبادت، میری یاد اور میرے ذکر میں مشغول رہتی ہے اور خود تم ہی اس کی شہادت دیتے ہو۔
بخاری کی روایت میں تو اس سوال (اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ وغیرہ) کے ساتھ ہی فرشتوں کی طرف سے اس کا جواب (اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا وغیرہ الخ) بھی منقول ہے لیکن مسلم کی روایت میں صرف سوال ہی منقول ہے جواب ذکر نہیں کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ بخاری کی روایت تو یہ جملہ صرف سوال ہی کے لئے ہے لیکن مسلم کی روایت میں یہ سوالیہ جملہ تعجب کے لئے ہے دونوں روایتوں کے آخری جملہ کے ذریعہ امت کے لوگوں کو اہل ذکر کی ہمنشینی اختیار کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ اللہ کی یاد اور اس کے ذکر میں مشغول رہنے والے اللہ کے نیک وصالح بندوں کی ہمنشینی و صحبت اختیار کرنا فلاح سعادت کی بات ہے کسی عارف نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صحبت یعنی اس کی یاد اور اس کے ذکر میں مشغولیت اختیار کرو اگر یہ نہ کر سکو پھر ان مقدس بندوں کی صحبت وہمنشینی اختیار کرو جو اللہ کی صحبت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ (یعنی جو ذکر وشغل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوامی حضور رکھتے ہیں۔

یہ حدیث شیئر کریں