مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ اللہ تعالیٰ کے ناموں کا بیان ۔ حدیث 809

اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام اور ان کی تفصیل ووضاحت

راوی:

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن لله تعالى تسعة وتسعين اسما من أحصاها دخل الجنة هو الله الذي لا إله هو الرحمن الرحيم الملك القدوس السلام المؤمن المهيمن العزيز الجبار المتكبر الخالق البارئ المصور الغفار القهار الوهاب الرزاق الفتاح العليم القابض الباسط الخافض الرافع المعز المذل السميع البصير الحكم العدل اللطيف الخبير الحليم العظيم الغفور الشكور العلي الكبير الحفيظ المقيت الحسيب الجليل الكريم الرقيب المجيب الواسع الحكيم الودود المجيد الباعث الشهيد الحق الوكيل القوي المتين الولي الحميد المحصي المبدئ المعيد المحيي المميت الحي القيوم الواجد الماجد الواحد الأحد الصمد القادر المقتدر المقدم المؤخر الأول الآخر الظاهر الباطن الوالي المتعالي البر التواب المنتقم العفو الرؤوف مالك الملك ذو الجلال والإكرام المقسط الجامع الغني المغني المانع الضار النافع النور الهادي البديع الباقي الوارث الرشيد الصبور " . رواه الترمذي والبيهقي في الدعوات الكبير . وقال الترمذي : هذا حديث غريب

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو شخص ان ناموں کو یاد کرے وہ جنت میں داخل ہو گا وہ اللہ ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اسم ذات اللہ کے علاوہ ننانوے نام یہ ہیں۔
(١) الرحمن (٢) الرحیم (٣) الملک(٤) القدوس(٥) السلام (٦) المومن (٧) المہیمن (٨) العزیز(٩) الجبار (١٠) المتکبر (١١) الخالق (١٢) الباری (١٣) المصور (١٤) الغفار (١٥) القہار (١٦) الوہاب (١٧) الرزاق(١٨) الفتاح (١٩) العلیم (٢٠) القابض (٢١) الباسط(٢٢) الخافض (٢٣) الرافع(٢٤) المعز(٢٥) المذل (٢٦) السمیع(٢٧) البصیر (٢٨) الحکم (٢٩) العدل (٣٠) اللطیف(٣١) الخبیر (٣٢) الحلیم (٣٣) العظیم (٣٤) الغفور (٣٥) الشکور (٣٦) العلی (٣٧) الکبیر (٣٨) الحفیظ(٣٩) المقیت (٤٠) الحسیب (٤١) الجلیل (٤٢) الکریم (٤٣) الرقیب (٤٤) المجیب (٤٥) الواسع(٤٦) الحکیم (٤٧) الودود (٤٨) المجید (٤٩) الباعث (٥٠) الشہید (٥١) الحق(٥٢) الوکیل (٥٣) القوی (٥٤) المتین (٥٥) الولی (٥٦) الحمید (٥٧) المحصی (٥٨) المبدی (٥٩) المعید (٦٠) المحی (٦١) الممیت (٦٢) الحی (٦٣) القیوم (٦٤) الواجد (٦٥) الماجد (٦٦) الواحد (٦٧) الاحد (٦٨) الصمد (٦٩) القادر (٧٠) المقتدر (٧١) المقدم (٧٢) المؤخر (٧٣) الاول (٧٤) الآخر (٧٥) الظاہر (٧٦) الباطن (٧٧) الوالی (٧٨) المتعال (٧٩) البر (٨٠) التواب (٨١) المنتقم (٨٢) العفو (٨٣) الرؤ ف(٨٤) مالک الملک(٨٥) ذوالجلال والاکرام (٨٦) المقسط(٨٧) الجامع(٨٨) الغنی (٨٩) المغنی (٩٠) المانع(٩١) الضار (٩٢) النافع (٩٣) النور (٩٤) الہادی (٩٥) البدیع (٩٦) الباقی (٩٧) الوارث (٩٨) الرشید (٩٩) الصبور۔ اس روایت کو ترمذی نے اور بیہقی نے دعوات کبیر میں نقل کیا۔ نیز ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
آیت (ھو اللہ الذی لا الہ الا ہو)۔ یہ جملہ مستانفہ ہے یعنی یہ علیحدہ جملہ ہے اور ان ننانوے ناموں کا بیان ہے جو آگے ذکر کئے گئے ہیں۔
اس کلمہ کے کئی مراتب ہیں اول یہ کہ جب منافق اس کلمہ کو پڑھتا ہے اور اس کی تصدیق سے خالی ہوتا ہے یعنی وہ قلبی تصدیق اور اعتقاد کے بغیر محض اپنے کو مسلمان ظاہر کرنے کے لئے اس کلمہ کو زبان سے ادا کرتا ہے تو یہ کلمہ اس کی دنیا کے لئے تو نافع بن جاتا ہے بایں طور کہ اس کی وجہ سے اس کی جان، اس کا مال اور اس کے اہل وعیال مسلمانوں کے ہاتھوں محفوظ ہو جاتے ہیں لیکن آخرت کے اعتبار سے یہ کلمہ اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا ۔
دوم یہ کہ اس کلمہ کو زبان سے پڑھنے کے ساتھ اعتقاد قلبی بھی ہو مگر تقلید محض کے طور پر اس درجہ صحیح ہونے میں مختلف اقوال ہیں۔ صحیح قول یہ ہے کہ یہ درجہ صحیح ہے۔ سوم یہ کہ اس کلمہ کو پڑھنے کے ساتھ اعتقاد قلبی بھی ہو مگر ایسا اعتقاد قلبی جو اللہ کی قدرت کی نشانیوں کو دیکھ کر حاصل کیا گیا ہو۔ اکثر علماء کے نزدیک یہ بھی درجہ معتبر ہے۔
چہارم یہ کہ زبان سے اس کلمہ کی ادائیگی کے ساتھ اعتقاد جازم بھی ہو۔ جو از راہ دلیل قطعی حاصل ہوا ہو متفقہ طور پر یہ درجہ مقبول ہے پنجم یہ کہ اس کلمہ کو ادا کرنے والا اس طرح کا ہو کہ وہ دل کی آنکھوں سے اس کلمہ کے معنی جانتا ہو۔ یعنی اسے کامل طور پر عرفان حق حاصل ہو اور یہی رتبہ عالی ہے یہ تفصیل اس صورت میں ہے جب کہ اس کلمہ کو زبان سے ادا کیا جائے دوسری شکل یہ ہے کہ اس کلمہ کو صرف دل میں کہے یعنی زبان سے ادائیگی نہ ہو اس صورت میں یہ تفصیل ہے کہ اگر کسی عذر مثلا گونگے پن وغیرہ کی بنا پر اس کلمہ کو زبان سے ادا کرنے سے قاصر ہے تو یہ کلمہ دنیا و آخرت دونوں کے لئے نافع ہے یعنی وہ دنیا وآخرت دونوں کے اعتبار سے نجات یافتہ ہو گا اور اگر کسی عذر کے بغیر بھی زبان سے ادا نہ کرے تو پھر آخرت میں اس سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ نووی نے اس بات پر اہل سنت کا اجماع نقل کیا ہے۔
" اللہ "
باری تعالیٰ کا اسم ذات ہے اس کے معنی ہیں وہ ذات عبادت کے لائق ہے۔ اکثر علماء کہتے ہیں کہ اسماء باری تعالیٰ میں یہ نام سب سے بڑا ہے نیز کہا گیا ہے کہ عوام کو چاہئے کہ وہ اس نام کو اپنی زبان پر جاری کریں اور خشیت وتعظیم کے طور پر اس نام کے ساتھ ذکر کریں خواص کو چاہئے کہ وہ اس نام کے معنی میں غور وفکر کریں اور یہ جانیں کہ اس نام کا اطلاق صرف اسی ذات پر ہو سکتا ہے جو صفات الوہیت کی جامع ہے اور خواص الخواص کو چاہئے کہ وہ اپنا دل اللہ میں مستغرق رکھیں اور اس ذات کے علاوہ اور کسی بھی طرف التفات نہ کریں اور صرف اسی سے ڈریں کیونکہ وہی حق اور ثابت ہے اس کے علاوہ ہر چیز فانی اور باطل ہے جیسا کہ بخاری میں منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شاعروں کے کلام میں سب سے صحیح کلام شاعر لبید کا یہ مصرعہ ہے کہ ۔ الا کل چیز ماخلا اللہ باطل۔ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز باطل ہے ۔
خاصیت
جو شخص اس اسم ذات (اللہ) کو ہزار بار پڑھے وہ صاحب یقین ہو اور جو شخص اس کو نماز کے بعد وافر پڑھے اس کا باطن کشادہ ہو اور وہ صاحب کشف ہو۔
" الرحمن ، الرحیم ۔ بخشنے والا "
ان دونوں ناموں سے بندہ کا نصیب یہ ہے (یعنی صفات باری تعالیٰ کو اپنانے کے سلسلہ میں ان اسماء کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف کامل توجہ ہو، اسی ذات پر توکل و بھروسہ کیا جائے اپنا باطن اس کے ذکر میں مشغول رکھا جائے غیر اللہ سے بے پرواہی برتی جائے بندگان اللہ پر رحم کیا جائے چنانچہ مظلوم کی حمایت ومدد کی جائے اور ظالم کو بطریق نیک ظلم سے باز رکھا جائے اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر سے غفلت برتنے والوں کو خبردار کیا جائے گنہگار کی طرف رحمت کی نظر کی جائے نہ کہ اسے نظر حقارت سے دیکھا جائے اپنی طاقت کے بقدر شرع امور کے استیصال میں کوشش صرف کی جائے اور اپنی وسعت وہمت کے مطابق محتاجوں اور ضرورت مندوں کی حاجتوں کو پورا کرنے کی سعی کی جائے۔
خاصیت
جو شخص ہر نماز کے بعد سو بار الرحمن الرحیم کہے حق تعالیٰ اس کے دل سے غفلت ، نسیان اور قساوت دور کرے گا اور تمام مخلوق اس پر مہربان ومشفق ہو گی۔
" الملک" حقیقی بادشاہ۔ یعنی وہ زمین وآسمان اور تمام عالم کا حقیقی بادشاہ ہے دونوں جہاں اسی کے تصرف اور قبضہ میں ہیں وہ سب سے بے نیاز ہے اور سب اس کے محتاج
لہٰذا جب بندہ نے اس کی یہ حیثیت وصفت جان لی تو اس پر لازم ہے کہ اس کی بارگاہ کا بندہ وغلام اور اسی کے در کا گدا بنے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کے ذریعہ اسی کے آستانہ عزت وجاہ کی طلب کرے۔ نیز بندہ پر لازم ہے کہ اس کی بارگاہ قدرت وتصرف سے تعلق پیدا کرے اس کے علاوہ ہر ایک سے کلیۃ بے نیازی اختیار کرے ۔ نہ کسی سے اپنی ضرورت وحاجت بیان کرے اور نہ کسی سے ڈرے نہ امید رکھے اپنے دل اپنے نفس اور اپنے قالب کی دنیا کا حاکم بنے اور اپنے اعضاء اور اپنے قوی کو قابو میں رکھ کر اس کی اطاعت وعبادت اور شریعت کی فرمانبرداری میں لگا دے تاکہ صحیح معنی میں اپنے وجود کی دنیا کا حاکم کہلائے ۔
خاصیت
جو شخص اس اسم کو القدوس کے ساتھ(یعنی ملک القدوس) پابندی کے ساتھ پڑھتا رہے تو اگر وہ صاحب ملک اور سلطنت ہو گا تو اس کے ملک اور سلطنت کو اللہ تعالیٰ قائم ودائم رکھے گا اور جو صاحب سلطنت نہ ہو گا تو اس کی برکت سے اس کا اپنا نفس مطیع و فرمانبردار رہے گا اور جو شخص اسے عزت وجاہ کے لئے پڑھے تو اس کا مقصود حاصل ہو گا اور اس بارہ میں یہ عمل مجرب ہے ۔
حضرت شاہ عبدالرحمن نے اس کی خاصیت یہ لکھی ہے کہ جو شخص اس اسم " الملک" کو روزانہ نوے بار پڑھے تو نہ صرف یہ کہ روشن اور تونگر ہو گا بلکہ حکام وسلاطین اس کے لئے مسخر ہو جائیں گے اور عزت واحترام اور جاہ کی زیادتی کے حصول کے لئے مجرب ہے۔
" القدوس" نہایت پاک۔
قشیری رحمہ اللہ نے کہا کہ جس شخص نے یہ جان لیا کہ اللہ تعالیٰ نہایت پاک ہے تو اب اس کو چاہئے کہ اس بات کی آرزو کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کو ہر حالت میں عیوب اور آفات سے دور اور گناہوں کی نجاست سے پاک رکھے۔
خاصیت
جو شخص اس اسم پاک کو ہر روز زوال آفتاب کے وقت پڑھے اس کا دل صاف ہو اور جو شخص نماز جمعہ کے بعد اس اسم و اسم السبوح کے ساتھ (یعنی القدس السبوح) روٹی کے ٹکڑے پر لکھ کر کھائے تو فرشتہ صفت ہو اور بھگدڑ کے وقت دشمنوں سے حفاظت کے وقت اس اسم کو جتنا پڑھا جا سکے پڑھا جائے اور مسافر اس کو برابر پڑھتا رہے اور کبھی ماندہ اور عاجز نہ ہو اور اگر اس کو تین سو انیس بار شیرنی پر پڑھ کر دشمن کو کھلا دے تو وہ مہربان ہو۔
" السلام" ۔ بے عیب وسلامت۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ بتایا ہے کہ مسلمان اس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے محفوظ وسلامت رہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ بہت زیادہ شفقت کا معاملہ کرے جب وہ کسی ایسے مسلمان کو دیکھے جو اس سے عمر میں بڑا ہو تو یہ کہے کہ یہ مجھ سے بہتر ہے کیونکہ اس نے میری نسبت زیادہ عبادت واطاعت کی ہے اور ایمان ومعرفت میں مجھ پر سبقت رکھتا ہے اور اگر کسی ایسے مسلمان کو دیکھے جو عمر میں اس سے چھوٹا ہو تو بھی یہی کہے یہ مجھ سے بہتر ہے کیونکہ اس نے میری بنسبت گناہ کم کئے ہیں۔ نیز اگر کسی مسلمان بھائی سے کوئی قصور ہو جائے اور وہ معذرت کرے تو اس کی معذرت قبول کر کے اس کا قصور معاف کر دیا جائے۔
خاصیت
اگر کوئی شخص اس اسم مبارک کو کسی بیمار پر ایک سو گیارہ مرتبہ پڑھے تو انشاء اللہ حق تعالیٰ اسے صحت وشفا عطا فرمائے گا اور اگر کوئی شخص اس کو برابر پڑھتا رہے تو خوف سے نڈر ہو گا۔
" المؤمن" ۔ امن دینے والا۔
اس اسم سے بندہ کا نصیب یہ ہے کہ وہ مخلوق اللہ کو نہ صرف اپنے شر اور اپنی برائی سے بلکہ دوسروں کی برائی اور شر سے بھی امن میں رکھے۔
خاصیت
جو شخص اس اسم کو بہت پڑھتا رہے یا اس کو لکھ کر اپنے پاس رکھے تو حق تعالیٰ اس کو شیطان کے شر سے نڈر رکھے گا اور کوئی شخص اس پر حاوی نہیں ہو گا نیز اس کا ظاہر اور اس کا باطن حق تعالیٰ کی امان میں رہے گا اور جو شخص اس کو بہت زیادہ پڑھتا رہے گا مخلوق اللہ اس کی مطیع اور فرمانبردار ہو گی۔
" المہیمن" ۔ہر چیز کا اچھی طرح محافظ نگہبان۔
اس اسم سے عارف کا نصیب یہ ہے کہ بری عادتوں، برے عقیدوں اور بری چیزوں مثلاً حسد اور کینہ وغیر ہما سے اپنے دل کی نگہبانی کرے اپنے احوال درست کرے اور اپنے قوی اور اپنے اعضا کو ان چیزوں میں مشغول ہونے سے محفوظ رکھے جو دل کو اللہ کی طرف سے غفلت میں ڈالنے والی ہوں۔
خاصیت
جو شخص غسل کے بعد اس اسم کو ایک سو پندرہ مرتبہ پڑھے وہ غیب اور باطن کی باتوں پر مطلع ہو اور جو شخص اس کو برابر پڑھتا رہے وہ تمام آفات سے پناہ پائے اور جنتیوں کی جماعت میں شامل ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں