مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ آرزوئے موت اور موت کو یاد رکھنے کی فضیلت کا بیان ۔ حدیث 83

خدا کی ذات سے رحمت ہی کی امید رکھو

راوی:

وعن عبد الله بن عمر قال : أخذ رسول الله صلى الله عليه و سلم بمنكبي فقال : " كن في الدنيا كأنك غريب أو عابر سبيل " . وكان ابن عمر يقول : إذا أمسيت فلا تنتظر الصباح وإذا أصبحت فلا تنتظر المساء وخذ من صحتك لمرضك ومن حياتك لموتك . رواه البخاري

حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ " تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نہ مرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیک گمان رکھتا ہو" ۔ (مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور بخشش پر کامل اعتقاد اور اس کے وعدہ رحم وکرم پر اعتقاد رکھنا چاہئے اور ہمہ وقت اس کے کرم اور اس کی رحمت کا امیدوار رہنا چاہے۔ نیز یہ کہ ہر شخص اللہ کے ساتھ ہر وقت اچھا گمان رکھے کہیں ایسا نہ ہو کہ بد گمانی رحمت مایوسی کی حالت میں مر جائے اور وہ مبتلائے قہر الٰہی ہو۔
علماء نے لکھا ہے کہ اخروی سعادت کی علامت یہ ہے کہ زندگی کے پورے عرصے میں خوف غالب رہے اور جب مرنے کے قریب پہنچے تو اس کی رحمت و بخشش کی امید غالب رہے۔
علماء نے لکھا ہے کہ " اللہ کے ساتھ نیک گمان رکھنے" سے مراد نیک اعمال کرنا ہے۔ یعنی اپنی زندگی میں اچھے اعمال کرنے چاہئیں تاکہ موت کے وقت اللہ کے ساتھ اچھا گمان رہے کیونکہ جس کی زندگی اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس کی رضا و خوشنودی کے حصول کی خاطر عبادات و نیک اعمال میں گزاری ہو گی۔ وہ مرنے کے وقت اللہ کے ساتھ یہی نیک گمان قائم کئے رہے گا کہ انشاء اللہ میرے ساتھ اچھا ہی معاملہ ہو گا اس کے برخلاف جس کی زندگی اللہ کی نافرمانی اور برے اعمال میں گزری ہو گی وہ موت کے وقت اللہ کے ساتھ برا ہی گمان رکھے گا کیونکہ جب موت سر پر کھڑی ہو گی تو اسے اپنی زندگی کے برے اعمال یاد آئیں گے اس وقت اسے یہ خیال پیدا ہو گا کہ میرے ساتھ اچھا معاملہ نہیں ہو گا۔
نیز علماء لکھتے ہیں کہ " امید" کی حقیقت یہ ہے کہ عمل کرے اور امید رکھے خدمت مولیٰ کرے اور نظر اس کی عطا پر رکھے نہ کہ جھوٹی امید جو عمل سے باز رکھے اور گناہوں کا باعث ہو، یہ امید نہیں ہے بلکہ آرزو اور غرور ہے۔
حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ کا یہ قول منقول ہے کہ " اگر تم میں سے کوئی شخص (جو بے عمل ہے) یہ کہتا ہے کہ میں اپنے پروردگار کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہوں تو وہ جھوٹ کہتا ہے کیونکہ اگر وہ اپنے پروردگار کے ساتھ اچھا گمان رکھتا تو نیک عمل بھی کرتا۔

یہ حدیث شیئر کریں