مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ استغفار وتوبہ کا بیان ۔ حدیث 859

رجوع الی اللہ کا حکم

راوی:

وعن أبي ذر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم فيما يروي عن الله تبارك وتعالى أنه قال : " يا عبادي إني حرمت الظلم على نفسي وجعلته بينكم محرما فلا تظالموا يا عبادي كلكم ضال إلا من هديته فاستهدوني أهدكم يا عبادي كلكم جائع إلا من أطعمته فاستطعموني أطعمكم يا عبادي كلكم عار إلا من كسوته فاستكسوني أكسكم يا عبادي إنكم تخطئون بالليل والنهار وأنا أغفر الذنوب جميعا فاستغفروني أغفر لكم يا عبادي إنكم لن تبلغوا ضري فتضروني ولن تبلغوا نفعي فتنفعوني يا عبادي لو أن أولكم وآخركم وإنسكم وجنكم كانوا أتقى قلب رجل واحد منكم ما زاد ذلك في ملكي شيئا يا عبادي لو أن أولكم وآخركم وإنسكم وجنكم كانوا على أفجر قلب واحد منكم ما نقص من ملكي شيئا يا عبادي لو أن أولكم وآخركم وإنسكم وجنكم قاموا في صعيد واحد فسألوني فأعطيت كل إنسان مسألته ما نقص ذلك مما عندي إلا كما ينقص المخيط إذا أدخل البحر يا عبادي إنما هي أعمالكم أحصها عليكم ثم أوفيكم إياها فمن وجد خيرا فليحمد الله ومن وجد غير ذلك فلا يلومن إلا نفسه " . رواه مسلم

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان حدیثوں کے سلسلہ میں کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ سے روایت کرتے تھے فرمایا کہ ایک حدیث قدسی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے یعنی میں ظلم سے پاک ہوں اور چونکہ ظلم میرے حق میں بھی ایسا ہے جیسے کہ تمہارے حق میں اس لئے میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے پس تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو علاوہ اس شخص کے جس کو میں ہدایت بخشوں پس تم مجھ سے ہدایت چاہو، میں تمہیں ہدایت دوں گا، اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو (یعنی کھانے کے محتاج ) علاوہ اس شخص کے جس کو میں کھلا دوں اور اسے رزق کی وسعت و فراخی بخشوں اور مستغنی بناؤں پس تم سب مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا اے میرے بندو! تم سب ننگے (یعنی ستر پوش کے لئے کپڑے کے محتاج ہو) علاوہ اس شخص کے جس کو میں نے پہننے کے لئے دیا پس تم سب مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم اکثر دن رات خطائیں کرتے ہو اور میں تمہاری خطائیں بخشتا ہوں پس تم سب مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخشوں گا۔ اے میرے بندو! تم ہرگز میرے ضرر کو نہیں پہنچ سکو گے تاکہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور ہرگز میرے نفع کو نہیں پہنچ سکو گے تاکہ مجھے فائدہ پہنچا سکو (یعنی گناہ کرنے سے بار گاہ صمدیت میں کوئی نقصان نہیں اور اطاعت کرنے سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ دونوں کا نقصان و فائدہ صرف تمہیں ہی پہنچتا ہے چنانچہ آگے اس کی تفصیل فرمائی کہ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر بھی تم میں سے کسی ایک نہایت پرہیزگار دل کی مانند ہو جائیں تو اس سے میری مملکت میں کوئی زیادتی نہیں ہو گی (یعنی اگر تم سب کے سب اتنے ہی پرہیز گار اور اتنے ہی نیک بن جاؤ جتنا کہ کوئی شخص پرہیزگار بن سکتا ہے مثلاً تم سب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی طرح پرہیزگار بن جاؤ کہ روئے زمین پر کوئی بھی ایسا شخص باقی نہ رہے جس کی زندگی پر فسق و فجور اور گناہ معصیت کا ہلکا سا اثر بھی ہو تو اس سے میری سلطنت و میری ادنیٰ سی بھی زیادتی نہیں ہو گی ) اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے، تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرضیکہ سب کے سب ) مل کر تم میں سے کسی ایک نہایت بدکار دل کی مانند ہو جائیں (یعنی تم سب ملک کر شیطان کی مانند ہو جاؤ) تو اس سے میری مملکت کی کسی ادنیٰ سی چیز کو بھی نہیں نقصان پہنچے گا، اے میرے بندو! اگر تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر تم میں سے نہایت بدکار دل کی مانند ہو جائیں یعنی تم سب ملک کر شیطان کی مانند ہو جاؤ تو اس سے مملکت کی کسی ادنیٰ سی چیز کو بھی نہیں نقصان پہنچے گا، اے میرے بندو! اگر تمہارے پچھلے انسان اور جنات (غرض کہ سب کے سب مل کر کسی جگہ کھڑے ہوں اور مجھ سے پھر مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کے مانگنے کے مطابق (ایک ہی وقت میں اور ایک ہی جگہ ) دوں تو میرا یہ دینا اس چیز سے جو میرے پاس ہے اتنا ہی کم کرتی ہے جتنا کہ ایک سوئی سمندر میں گر کر (اس کے پانی کو کم کرتی ہے) اے میرے بندو! جان لو میں تمہارے اعمال یاد رکھتا ہوں اور انہیں تمہارے لئے لکھتا ہوں، میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا، پس جو شخص بھلائی پائے (یعنی اسے اللہ تعالیٰ کی نیک توفیق حاصل ہو اور عمل خیر کرے ) تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور جو شخص بھلائی کے علاوہ پائے یعنی اسے اللہ تعالیٰ کی نیک توفیق حاصل ہو اور عمل خیر کرے تو اسے چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کرے اور جو شخص بھلائی کے علاوہ پائے یعنی اس سے کوئی گناہ سرزد ہو تو وہ اپنے نفس کو ملامت کرے کیونکہ اس سے گناہ کا سرزد ہونا نفس ہی کے تقاضہ سے ہوا۔ (مسلم)

تشریح
کلکم ضال (تم سب گمراہ ہو) اس اعتبار سے فرمایا کہ دنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ اس سے دنیا اور دین کا ہر کمال ہر سعادت اور تمام ہی بھلائیاں ہوں ہر شخص کے اندر کچھ نہ کچھ کمی اور کوتاہی ضرور ہوتی ہے اور اگر کوئی دینی اور اخروی اعتبار سے اپنے اندر کوئی کمی اور کوتاہی وگمراہی رکھتا ہے تو کسی کے اندر دنیاوی امور کے اعتبار سے کوئی نہ کوئی کمی اور کجی ہوتی ہے اس لئے فرمایا کہ تم سب گمراہ ہو یعنی دنیوی اور دینی دونوں اعتبار سے درجہ کمال سے ہٹے ہوئے ہوں۔
الا من ہدیتہ (علاوہ اس شخص کے جس کو میں ہدایت بخشوں) اللہ تعالیٰ کے ارشاد کی مراد یہ ہے کہ اگر لوگوں کو ان کی اس حالت وکیفیت پر چھوڑ دیا جو ان کی طبیعت اور ان کے نفس کی بنیاد ہوتی ہے تو وہ خود رو درخت کی طرح جس طرح چاہیں بڑھیں اور جس سمت چاہیں چلیں، جس کا نتیجہ گمراہی اور بے راہ روی ہے اس لئے میں جس کو چاہتا ہوں اسے فکر وذہن کی سلامت اور اعمال نیک کی ہدایت بخشتا ہوں جس کا نتیجہ گمراہی اور بے راہ روی ہے اس لئے میں جس کو چاہتا ہوں اسے فکر وذہن کی سلامت اور اعمال نیک کی ہدایت بخشتا ہوں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا نفس صحیح راستہ پر چلتا ہے اور اس کی طبیعت نیکی ہی کی سمت بڑھتی ہے اس بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طور پر بیان فرمایا ہے کہ ان اللہ خلق الخلق فی ظلمۃ ثم رش علیہم من نورہ۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اندھیرے میں پیدا کیا اور پھر ان پر اپنے نور کا چھینٹا دیا۔ اس موقع پر یہ خلجان پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ یہ بات اس حدیث (کل مولود یولد علی الفطرۃ)۔ ہر بچہ فطرت (اسلام کی فطرت) پر پیدا کیا جاتا ہے۔ کے منافی ہے کیونکہ فطرت سے مراد تو حید ہے اور ضلالت یا عظمت سے مراد احکام ایمان کی تفصیل اور اسلام کے حدود وشرائط کا نہ جاننا ہے۔
وانا اغفرالذنوب جمیعا میں تمہاری ساری خطائیں بخشتا ہوں کا مطلب یہ ہے کہ تم دن رات لغزشوں اور گناہوں میں مبتلا رہتے ہو لیکن اگر اپنے ان گناہوں پر ندامت کے ساتھ توبہ واستغفار کرتے تو میں تمہارے سب گناہ بخش دیتا یا پھر یہ مراد ہے کہ ایک تو صرف ایسا گناہ ہے جس سے توبہ کئے بغیر بخشش ممکن نہیں ہاں اس کے علاوہ اور سب گناہ اگر میں چاہتا ہوں تو بغیر توبہ واستغفار کے بھی اپنے فضل وکرم اور اپنی رحمت خاص کے پیش نظر بخش دیتا ہوں۔
جتنا کہ سوئی کم کر دیتی ہے۔ کے بارہ میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ سوئی کا سمندر میں گر کر اس کے پانی کو کم کر دینا نہ محسوس چیز ہے اور نہ عقل وشعور کی رسائی میں آنے والی بات بلکہ وہ کالعدم ہے اس لئے اس کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے ورنہ تو اللہ کے خزانے میں کسی ادنی سے ادنی درجہ کی کمی کا بھی کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔
ابن ملک کہتے ہیں کہ اس بارہ میں یا پھر کہا جائے کہ یہ جملہ بالفرض والتقدیر کی قسم سے ہے یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے خزانے میں کمی فرض بھی کی جائے تو وہ اس قدر ہو سکتی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں