مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ استغفار وتوبہ کا بیان ۔ حدیث 860

توبہ اور رحمت الٰہی کی وسعت

راوی:

وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " كان في بني إسرائيل رجل قتل تسعة وتسعين إنسانا ثم خرج يسأل فأتى راهبا فسأله فقال : أله توبة قال : لا فقتله وجعل يسأل فقال له رجل ائت قرية كذا وكذا فأدركه الموت فناء بصدره نحوها فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب فأوحى الله إلى هذه أن تقربي وإلى هذه أن تباعدي فقال قيسوا ما بينهما فوجد إلى هذه أقرب بشبر فغفر له "

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ بنی اسرائیل حضرت موسیٰ کی قوم میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا پھر لوگوں سے یہ پوچھنے نکلا کہ اگر میں توبہ کر لوں تو وہ توبہ قبول ہو گی یا نہیں؟ چنانچہ اسی سلسلہ میں وہ ایک عابد و زاہد کے پاس آیا اور اس سے پوچھا کہ کیا اس اتنے بڑے گناہ سے یا اس اتنے بڑے گناہ کرنے والے ہی کے لئے توبہ ہے؟ یعنی کیا اس کی توبہ قبول ہو گی یا نہیں؟ اس عابد و زاہد نے کہا کہ نہیں! اس شخص نے یہ سنتے ہی اس عابد و زاہد کو بھی قتل کر دیا اور پھر دوسرے لوگوں سے پوچھتا پھرنے لگا۔ ایک شخص نے اس سے کہا کہ تم فلاں بستی جاؤ وہ ایسی اور ایسی ہے (یعنی اس نے اس بستی کا نام لیا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ بہت اچھی بستی ہے وہاں ایک عالم رہتا ہے جو تمہیں تمہاری توبہ کے قبول ہونے کا فتویٰ دے گا چنانچہ وہ شخص اس بستی کی طرف چل کھڑا ہوا ابھی آدھے ہی راستے پر پہنچ پایا تھا کہ اچانک اسے موت نے آ دبوچا (چنانچہ اسے موت کی علامت محسوس ہوئیں) تو اس نے اپنا سینہ اس بستی کی طرف جھکا دیا اور پھر اس کی روح قبض کرنے کے وقت رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے (ملک الموت سے جھگڑنے لگے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو جس کی طرف وہ توبہ کرنے جا رہا تھا حکم دیا کہ وہ میت کے قریب آ جائے اور اس بستی کو جہاں سے وہ قتل کر کے آ رہا تھا حکم دیا کہ وہ میت سے دور ہو جائے پھر اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے فرمایا تم دونوں بستیوں کے درمیان پیمائش کرو اگر میت اس بستی کے قریب ہو گی جہاں وہ توبہ کے لئے جا رہا تھا تو اسے رحمت کے فرشتوں کے حوالہ کیا جائے گا اور اگر اس بستی کے قریب ہو جہاں سے وہ قتل کر کے آ رہا تھا تو عذاب کے فرشتوں کے حوالہ کیا جائے گا۔ چنانچہ جب فرشتوں نے پیمائش کی تو وہ توبہ کے لئے جس بستی کی طرف جا رہا تھا اس سے ایک بالشت قریب پایا گیا پس حق تعالیٰ نے اسے بخش دیا ۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
ابن ملک کہتے ہیں کہ جب ملک الموت نے اس شخص کی روح قبض کی تو رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں ملک الموت سے اس کی روح لینے کے لئے جھپٹنے لگے ، رحمت کے فرشتے تو یہ کہتے تھے کہ چونکہ یہ شخص توبہ کے لئے اس بستی کی طرف متوجہ ہونے کی بنا پر تائب تھا اس لئے ہم اسے رحمت الٰہی کی طرف لے جائیں گے اور عذاب کے فرشتے یہ کہتے تھے کہ اس شخص نے چونکہ ایک سو آدمیوں کو ناحق قتل کیا ہے اور ابھی تک اس نے توبہ نہیں کی تھی اس لئے ہم اسے عذاب الٰہی کی طرف لے جائیں گے چنانچہ حق تعالیٰ نے اس کا فیصلہ جس طرح فرمایا وہ اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طالب توبہ کے لئے حق تعالیٰ کی رحمت کی وسعت کسی قید اور حد کی پابند نہیں ہے اس کی بے پایاں رحمت خلوص قلب کے ساتھ اپنی طرف متوجہ ہونے والے بڑے سے بڑے سرکش اور گنہگار کو بھی اپنے دامن میں چھپا لیتی ہے ۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ جب کوئی بندہ قلب ونیت کے اخلاص کے ساتھ بارگاہ الوہیت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دشمنوں کو بھی اس سے راضی کر دیتا ہے۔
یہ حدیث اس بات کی ترغیب دلا رہی ہے کہ توبہ واستغفار کے ذریعے اپنے دامن کو گناہوں کی آلائش سے پاک وصاف رکھا جائے اور حق تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی اور نا امیدی کو اپنے پاس بھٹکنے بھی نہ دیا جائے۔

یہ حدیث شیئر کریں