مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ رحمت باری تعالیٰ کی وسعت کا بیان ۔ حدیث 899

بندہ کو بین الخوف والرجا رہنا چاہئے

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لو يعلم المؤمن ما عند الله من العقوبة ما طمع بجنته أحد ولو يعلم الكافر ما عند الله من الرحمة ما قنط من جنته أحد "

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا "کہ اگر مومن یہ جان لے کہ اللہ کے ہاں کس قدر عذاب ہے تو پھر کوئی شخص اس کی جنت کی امید بھی نہ رکھے (یعنی عذاب کی فراوانی اسے جنت سے مایوس کر دے) اور اگر کافر یہ جان لے کہ اللہ کی رحمت کس قدر ہے تو پھر کوئی اس کی جنت سے نا امید نہ ہو۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اس حدیث کا منشاء درحقیقت اللہ کی رحمت اور اس کے عذاب کی کثرت کو ظاہر کرنا ہے تاکہ مومن تو اس کی رحمت پہ اعتماد کر کے نہ بیٹھ جائے اور اس کے عذاب سے بالکل بے خوف و نڈر نہ ہو جائے اور کافر اس کی رحمت سے نا امیدی نہ اختیار کر لے اور توبہ کرنا نہ چھوڑے۔
اور حاصل اس حدیث کا یہ ہے کہ بندہ کو چاہئے کہ وہ بین الخوف والرجاء (خوف اور امید کے درمیان ) رہے یعنی اللہ کی رحمت پر امید بھی رکھے اور اس کے عذاب سے بھی ڈرتا رہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر قیامت کے دن یہ اعلان کیا جائے گا کہ ایک شخص جنت میں داخل ہوگا تو میں امید رکھوں گا کہ وہ شخص میں ہوں اور اسی طرح اگر یہ اعلان کیا جائے کہ ایک شخص دوزخ میں داخل کیا جائے تو میں گمان رکھوں گا کہ وہ شخص میں ہی ہوں۔

یہ حدیث شیئر کریں