مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ مختلف اوقات کی دعاؤں کا بیان ۔ حدیث 959

مہمان اور میزبان کے لئے کچھ مسنون باتیں

راوی:

وعن عبد الله بن يسر قال : نزل رسول الله صلى الله عليه و سلم على أبي فقربنا إليه طعاما ووطبة فأكل منها ثم أتي بتمر فكان يأكله ويلقي النوى بين أصبعيه ويجمع السبابة والوسطى وفي رواية : فجعل يلقي النوى على ظهر أصبعيه السبابة والوسطى ثم أتي بشراب فشربه فقال أبي وأخذ بلجام دابته : ادع الله لنا فقال : " اللهم بارك لهم فيما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم " . رواه مسلم

حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے والد کے پاس بطور مہمان تشریف لائے چنانچہ ہم نے کھانا اور مالیدہ کی مانند ایک چیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے تناول فرمایا پھر خشک کھجور پیش کی گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھجور کھاتے اور اس کی گٹھلی بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے درمیان ڈالتے جاتے اور اس کے لئے آپ اپنی شہادت کی اور بیچ کی انگلی یکجا کئے ہوئے تھے ۔ ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بائیں ہاتھ کی) اپنی دونوں انگلیوں یعنی شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کی پشت پر گٹھلیاں ڈالتے جاتے تھے بہرکیف اس کے بعد پانی پیش کیا گیا جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیا پھر میرے والد نے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری کی لگام پکڑے ہوئے تھے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ سے میرے لئے دعا فرمائیے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دعا فرمائی دعا (اللہم بارک لہم فیما رزقتہم واغفر لہم وارحمہم) ۔ اے اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ روزی رزق دیا ہے اس میں برکت فرما ان کو بخش دے اور ان پر رحم فرما۔ (مسلم)

تشریح
کھجوریں کھاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی گٹھلیوں کو اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں پر جمع کرتے جاتے تھے۔ اب ایک روایت تو یہ بتاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گٹھلیاں دونوں انگلیوں کے درمیان رکھتے جاتے تھے اور ایک روایت یہ بتا رہی ہے کہ دونوں انگلیوں کی پشت پر ڈالتے تھے بظاہر اس میں اختلاف نظر آتا ہے لیکن اگر ذہن میں یہ بات رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گٹھلیوں کو دوں انگلیوں کے درمیان کبھی رکھے جاتے ہوں گے اور کبھی دونوں انگلیوں کی پشت پر ڈالتے جاتے ہوں گے تو ان دونون روایتوں میں کوئی تعارض نظر نہیں آئے گا۔ اور پھر پشت پر انگلیوں کی، گٹھلیوں کو ڈالنے کی وجہ یہ تھی تاکہ ہاتھ کے اندر کا رخ گٹھلیوں میں لگے ہوئے لعاب وغیرہ سے ملوث نہ ہو کیونکہ اندر کی صفائی اور ستھرائی باہر کی صفائی اور ستھرائی سے اولیٰ ہے۔
یہ حدیث ایسی کئی باتوں کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو مہمان اور میزبان کے لئے مسنون کا درجہ رکھتی ہے ۔ مثلا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اکابر اور مہمان کی سواری کی رکاب اور لگام کو از راہ تواضع اور خطر داری پکڑنا مسنون ہے۔ اسی طرح مہمان کو رخصت کرنے کے لئے مکان کے دروازے یا باہر کچھ دور تک اس کے ساتھ جانا سنت ہے۔ نیز اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ میز بان کے لئے تو یہ مسنون ہے کہ وہ مہمان سے طلب دعا کرے اور مہمان کے لئے یہ مسنون ہے کہ میزبان کے لئے دعا کرے۔

یہ حدیث شیئر کریں