مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ کفاروں کا بیان۔ ۔ حدیث 1036

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام سربراہان مملکت کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی

راوی:

وعن أنس : أن النبي صلى الله عليه و سلم كتب إلى كسرى وإلى قيصر وإلى النجاشي وإلى كل جبار يدعوهم إلى الله وليس بالنجاشي الذي صلى عليه النبي صلى الله عليه و سلم . رواه مسلم

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ فارس یعنی ایران کے بادشاہ کسریٰ روم کے بادشاہ قیصر اور حبش کے بادشاہ نجاشی اور ہر متکبر و مقتدر بادشاہ کو خطوط لکھے جن میں انہیں اللہ یعنی دین اسلام کی طرف بلایا گیا تھا اور یہ نجاشی کہ جس نے یہ خط بھیجا تھا وہ نجاشی نہیں ہے جس کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی تھی ۔" (مسلم )

تشریح :
روایت کے آخری جزء کا مقصد ان لوگوں کے خیال کی تردید کرنا ہے جن کے نزدیک یہ نجاشی کہ جس کو مکتوب بھیجا گیا تھا وہی نجاشی ہے جس کا نام اصحمہ تھا اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطیع و فرنبردار اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کا اپنے ملک میں خادم ونگہبان تھا جب مدینہ میں اس کا انتقال کی خبر آئی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مرد صالح اور تمہارا بھائی اصحمہ اللہ کو پیارا ہو گیا ہے ، اٹھو اور اس کا نماز جنازہ پڑھو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی غائبانہ جنازہ پڑھائی ۔
لیکن بعض محققین کے نزدیک اس تردید کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں نجاشیوں کو مکتوب بھیجے پہلے تو اصحمہ کا نام بھیجا تھا اور پھر اصحمہ کے بعد جو شخص نجاشی ہوا اس کے پاس بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکتوب بھیجا ۔
اب رہی یہ بات کہ جس طرح پہلا نجاشی یعنی اصحمہ مسلمان ہوگیا تھا اس طرح دوسرا نجاشی بھی مسلمان ہوگیا تھا یا نہیں ؟ اس بارے میں تحقیقی روایات مختلف ہیں بعض کے نزدیک وہ بھی مسلمان ہوگیا تھا مگر بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہوا تھا۔
چونکہ پہلے قیصر اور کسریٰ کے بارے میں ذکر کیا جا چکا ہے اس لئے نجاشی کے بارے میں بھی کچھ باتیں ذکر کر دینا ضروری ہے حبش عرب کی جنوبی سمت میں مشرقی افریقہ میں واقع ایک ملک ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت اس ملک پر جو شخص حکمران تھا اس کا نام " اصحمہ " اور پورا ملک عیسائیت کا پیرو تھا ۔
" حبش " اصل میں عربی نام ہے یونانی میں اسے " اتھوپیا " کہتے ہیں اور دنیا کے موجودہ نقشہ میں بھی یہ اتھوپیا ہی کے نام سے موسوم ہے ۔ حبشی زبان میں بادشاہ کو نجوس کہتے ہیں نجاشی اسی نجوس کا معرب ہے ۔
اسلامی تاریخ میں اس وقت کے حبش کا ذکر نہایت ہی عزت واحترام اور شکر گذاری وممنونیت کے انتہائی جذبات کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی بعثت کے فورًا بعد دنیا کو اللہ کے آخری دین اسلام کی طرف بلایا اور اپنی رسالت کا اعلان کر کے دنیا والوں کو اپنی اطاعت کی دعوت دی اور رفتہ رفتہ مکہ کے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ اطاعت میں داخل ہونے لگے اور اس طرح اللہ کے نام کا جھنڈا سربلند ہونے لگا تو مکہ کے کفار اس کو برداشت نہ کر سکے اور ان کی طرف سے مکہ مکرمہ کی وسیع سر زمین حلقہ بگوشان اسلام پر اللہ واحد کا نام لینے کے جرم میں تنگ کر دی گئی چنانچہ اس وقت جب قریش مکہ کے مظالم انسانیت کی تمام حدوں کو پیچھے چھوڑ گئے اور پرستاران تو حید پر ظلم وستم اور بربریت کی انتہا ہو گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کر کے چلے جانے کی اجازت دی تو یہ حبش ہی تھا جس نے اپنے ملک کے دروازے ان مظلوموں کے لئے پوری فراخدلی کے ساتھ کھول دیئے اور ان کو اپنی سر زمین پر انتہائی عزت واحترام کے ساتھ پناہ دی ۔
مسلمانوں کا پہلا قافلہ جس نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی حضرت عثمان غنی کی سربراہی میں حبش پہنچا اس کے بعد جب دوسرا قافلہ حبشہ پہنچا اور جس کے قائد حضرت علی کے بڑے بھائی حضرت جعفر طیار تھے تو اس مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہ حبش کے نام ایک مکتوب گرامی بھی ارسال فرمایا اور بعض مؤرخین کے قول کے مطابق مکتوبات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ پہلا نامہ مبارک ہے اس میں نجاشی کو صرف اسلام کی دعوت ہی نہیں دی گئی تھی بلکہ اس بات کی نصیحت کی گئی تھی کہ وہ حکومت کے غرور وتکبر کو ترک کر کے حبش میں پناہ لینے کے لئے جانے والے مظلوم مکی مسلمانوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئے ۔ قریش مکہ کو چونکہ یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ مسلمان حبش میں امن وسکون کی زندگی گذار سکیں اس لئے انہوں نے معززین مکہ کا ایک وفد عمرو بن العاص جیسے زبردست موقع شناس اور دانش مند سیاستدان کی سربراہی ہی میں شاہ حبش کے دربار میں بھیجا تاکہ وہ ان مہاجر مسلمانوں کو حبش سے واپس لے آئے اور مکہ میں انہوں نے پھر سے اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جائے اس وفد نے شاہ حبش کے سامنے مسلمانوں کی شکایت کی اور نجاشی کو مشتعل کرنے کے لئے یہ کہا کہ " یہ لوگ عجیب وغریب عقائد رکھتے ہیں جن سے نہ ہم واقف ہیں اور نہ آپ " ۔
نجاشی شاہ حبش نے وفد کی اس شکایت پر مہاجرین سے حقیقت حال کی وضاحت کے لئے کہا اور ان سے ان کے عقائد دریافت کئے تو اس موقع پر حضرت جعفر طیار نے جو معرکۃآلا راء تقریر کی وہ حق گوئی وبے باکی اور ایک شاہی دربار میں اسلامی عقائد ونظریات کا جرأت مندانہ ذریعہ تعارف ہونے کی وجہ سے صرف اسلامی تاریخ ہی کا ایک بیش بہا سرمایہ نہیں ہے بلکہ دنیا کی ادبی تاریخ کا ایک زرین ورق اور فن خطابت وتقریر کا ایک انمول شاہکار بھی ہے انہوں نے نے شاہ حبش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ۔
" شاہ ذی جاہ !" ہم ایک سخت جاہل قوم تھے ، مصنوعی اور خود ساختہ بتوں کی پرستش ہمارا مذہبی شعار تھا مردار خوری ، بدکاری اور بے رحمی ہماری معاشرت کا اہم جزو بن گیا تھا ہم نہ ہمسایہ کے حقوق سے واقف تھے اور نہ اخوت وہمدردی کے جذبہ سے آشنا ، ہر طاقتور ، کمزوروں کو ہڑپ کر جانے پر فخر کرتا تھا ۔ یہ تھا ہمارا معیار زندگی ۔
ہماری اس تباہ حالی کا دور عرصہ سے قائم تھا کہ یک بیک خدائے برتر نے ہماری قسمت کا پانسہ پلٹ دیا ، اور ہم میں ایک ایسا پیغمبر بھیجا جس کے نسب وحسب سے ہم واقف ہیں جس کی سچائی اور امانت کا حال ہم پر روشن ہے اور جس کی عفت وپاک دامنی ہر وقت ہماری نظروں میں رہی ہے اور وہ آیا اور اس نے ہمیں ہدایت کی وہ روشن شمع دکھلائی جس نے ہماری آنکھوں سے بد کر داری اور جہالت کی تاریکی کے تمام پردے چاک کر دئیے ۔
اس پیغمبر نے ہمیں بتایا کہ تم صرف خدائے واحد کی پرستش کرو اور اسی کو اپنا خالق ومالک سمجھو ، بت پرستی کو چھوڑ دو تمہارے یہ خود ساختہ معبود نہ تمہیں کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان !(یاد رکھو) گمراہی کی بنیاد باپ دادا کی کو رانہ تقلید ہے ۔
اس نے ہمیں تعلیم دی کہ " ہمیشہ سچ بولو " امانت میں کبھی خیانت نہ کرو ، ہمسایہ کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کو ہمیشہ اپنا شعار بنائے رکھو ،
خون ریزی اور اللہ کی حرام کی ہوئی باتوں سے بچو ، فحش کاموں اور جھوٹ کے قریب نہ جاؤ یتیم کا مال نہ کھاؤ اور پاکدامن کو تہمت نہ لگاؤ ، خدائے واحد کی عبادت کرو ، روزہ رکھو اور اموال کی زکوۃ دیا کرو ۔
بادشاہ سلامت ! اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے اور بہت سے بہترین امور کی ہمیں تعلیم دی دے ہے ہم نے اس کی تصدیق کی ، اس کو اللہ کا پیغمبر سمجھا اور اس پر ایمان لائے اور جو کچھ اس نے اللہ کا حکم ہمیں سنایا ، ہم نے اس کی پیروی کی ، ہم نے اللہ کو ایک جانا ، شرک سے توبہ کی ، حلال کو حلال سمجھا اور حرام کو حرام جانا ۔ یہ ہے ہمارا جرم جس پر ہمارے ہم وطنوں نے ہمیں اپنا گھر بار چھوڑ دینے پر مجبور کر دیا اور ہم نے آپ کے ملک میں آ کر پناہ لی ہے ۔
شاہ حبش اس پر حقائق اور بصیرت افروز تقریر کا بہت اثر ہوا ، اس نے قریش کے وفد کو صاف جواب دے دیا کہ " ایسے پاکیزہ عقائد رکھنے والے نیکو کار لوگوں کو میں واپس کر کے ظالموں کے ظلم وستم کا شکار ہرگز ہرگز نہ بننے دوں گا ۔ "
٦ھ کے آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے بعد مدینہ واپس آئے اور محرم ٧ھ =٦٢٩ء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاہان عالم کے نام نامہ ہائے مبارک روانہ فرمائے تو شاہ حبش کو پھر ایک مکتوب گرامی ارسال فرمایا بارگاہ رسالت کے سفیر حضرت عمرو ابن امیہ ضمری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کانامہ مبارک لے کر شاہ حبش کے دربار میں پہنچے تو پہلے انہوں نے نجاشی کے سامنے ایک اثر انگیز تقریر کی جس میں انہوں نے نجاشی کے اس مشفقانہ رویہ پر اظہار اطمینان کیا جو اس نے مکہ کے مظلوم مسلمانوں کے تئیں اختیار کیا ہوا تھا اور پھر اسلامی عقائد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اختیار کرنے کی مؤثر تبلیغ کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ۔
میری طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے بعض دیگر اشخاص مختلف بادشاہوں کے پاس دعوت اسلام کے لئے قاصد بنا کر بھیجے گئے ہیں مگر سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو جو امید آپ کی ذات سے وابستہ ہے دوسروں سے ایسی امید نہیں ہے آپ سے اس بارے میں پورا اطمینان ہے کہ آپ اپنے اور اللہ کے درمیان اپنی گذشتہ نیکی اور آئندہ کے اجر وثواب کا خیال رکھیں گے ۔
کچھ عرصہ پہلے حضرت جعفر طیار کی معجز بیانی سے نجاشی اسلام کی دعوت سے واقف ہو چکا تھا اب حضرت عمرو ابن امیہ کی اثر انگیز تبلیغ نے اس کے سینے میں ایمان کی شمع روشن کر دی ، وہ تخت شاہی سے نیچے اتر کر زمین پر بیٹھ گیا ، نامہ مبارک کو ہاتھ میں لے کر تعظیمًا اس کو چوما اور دونوں آنکھوں سے لگایا اور پھر ترجمان کو بلوا کر پڑھنے کا حکم دیا ، نجاشی فرمان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کو سنتا جاتا تھا اور متأثر ہوتا جاتا تھا جوں ہی مضمون ختم ہوا اور وہ اس کے مندرجات پر مطلع ہوا فرط شوق میں نامہ مبارک کو بوسہ دے کر سر پر رکھ لیا اور کہا (اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ) اور پھر کہا کہ اگر میں جا سکتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوتا پھر اس نے اپنے بیٹے آرہا کو تحفے تحائف دے کر بارگاہ رسالت میں بھیجا مگر بدقسمتی سے آ رہا راستہ میں ہی انتقال کر گیا اور بارگاہ رسالت میں نہیں پہنچ سکا ۔
اس کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو ابن امیہ ضمری کو نجاشی کے نام اپنے ایک مکتوب گرامی دے کر حبش بھیجا نجاشی نے ان مبارک ناموں کو احتیاط کے ساتھ ہاتھی دانت کے ایک صندوق میں محفوظ کر کے اپنے خزانہ میں رکھ دئیے اور کہا کہ جب تک یہ فرمان موجود ہیں مجھے یقین ہے کہ اہل حبش مامون ومحفوظ رہیں گے ۔ چنانچہ یہ مبارک نامے جب تک حبشہ کے خزانے میں موجود رہے ہر والی سلطنت اس مکتوب گرامی کی انتہائی تعظیم وتکریم کرتا اور پورے ملک کے لوگ اس کے ذریعہ برکت حاصل کرتے ۔

یہ حدیث شیئر کریں