مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ کفاروں کا بیان۔ ۔ حدیث 1038

سورج ڈھلنے کے بعد جنگ شروع کرنے کی حکمت

راوی:

وعن عبد الله بن أبي أوفى : أن رسول الله صلى الله عليه و سلم في بعض أيامه التي لقي فيها العدو انتظر حتى مالت الشمس ثم قام في الناس فقال : " يا أيها الناس لا تتمنوا لقاء العدو واسألوا الله العافية فإذا لقيتم فاصبروا واعلموا أن الجنة تحت ظلال السيوف " ثم قال : " اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب وهازم الأحزاب واهزمهم وانصرنا عليهم "

اور حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دنوں میں سے ایک دن جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے مقابلہ پر تھے (یعنی جہاد کے موقع پر میدان جنگ میں تھے ) سورج ڈھلنے تک جنگ شروع کرنے کا انتظار کرتے رہے پھر جب سورج ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے (خطبہ دینے کے لئے ) کھڑے ہوئے اور فرمایا ! تم اپنے دشمن سے مقابلہ کی آرزو نہ کرو (یعنی یہ نہ چاہو کہ کفار سے قتل وقتال کا بازار گرم ہو کیونکہ یہ چاہنا گویا ابتلاء ومصیبت کی خواہش کرنا ہے جو ممنوع ہے ) بلکہ اللہ تعالیٰ سے امن وعافیت کے طالب رہو ، ہاں جب دشمن سے تمہارا مقابلہ ہو جائے تو پھر پوری بہادری کے ساتھ ڈٹ جاؤ اور صبر واستقامت سے کام لو اور اس بات کو جان لو کہ جنت ، تلواروں کے سائے کے نیچے ہے (یعنی تم جنت کے بالکل قریب ہو ) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا فرمائی ۔ اے اللہ ! کتاب کو نازل فرمانے والے بادلوں کو چلانے والے اور کفار کی جماعت کو شکت دینے والے ان دشمنوں کو شکست دے اور ہم کو ان پر فتح عطا فرما ۔" (بخاری ومسلم)

تشریح :
سورج ڈھلنے تک جنگ کی ابتداء، نہ کرنے میں یہ حکمت تھی کہ تپتی ہوئی دوپہر کے بعد جب سورج ڈھل جاتا ہے ، تو تمازت وتپش میں کمی آ جاتی ہے ، ہوا چلنے لگتی ہے جو فرحت پہنچاتی ہے اور اس طرح وہ وقت طبیعت کے انبساط ونشاط کا ہوتا ہے ، دوسرے یہ کہ وہ نماز و دعا کا بھی وقت ہوتا ہے ۔
نیز حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس وقت آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور انسانوں کے اعمال اوپر محل قبولیت میں اٹھائے جاتے ہیں لہٰذا ایسے وقت میں جب کہ انوار وبرکات اور فتح ونصرت کے نزول کی امید ہوتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ جہاد جو افضل ترین عمل ہے اسی بابرکت وقت میں واقع ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں