مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ کفاروں کا بیان۔ ۔ حدیث 1039

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح ہونے سے پہلے دشمن آبادی پر حملے نہیں کرتے تھے

راوی:

وعن أنس : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان إذا غزا بنا قوما لم يكن يغزو بنا حتى يصبح وينظر إليهم فإن سمع أذانا كف عنهم وإن لم يسمع أذانا أغار عليهم قال : فخرجنا إلى خيبر فانتهينا إليهم ليلا فلما أصبح ولم يسمع أذانا ركب وركبت خلف أبي طلحة وإن قدمي لتمس قدم نبي الله صلى الله عليه و سلم قال : فخرجوا إلينا بمكاتلهم ومساحيهم فلما رأى النبي صلى الله عليه و سلم قالوا : محمد والله محمد والخميس فلجؤوا إلى الحصن فلما رآهم رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " الله أكبر الله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين "

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ کسی (دشمن ) قوم سے جہاد کرتے (یعنی جب جہاد کے موقع پر کسی ایسی دشمن آبادی پر حملہ آور ہونے کا ارادہ فرماتے جس کے حالات کا علم نہیں ہوتا اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک جہاد ہوتے ) تو صبح ہونے سے پہلے ہمارے ساتھ ان پر حملہ آور نہیں ہوتے ، پھر صبح ہو جاتی تو ان (دشمنوں کی آبادی اور ان کے ٹھکانوں ) پر نظر ڈالتے (تاکہ مشاہدہ یا قرائن سے یہ معلوم ہو جائے کہ یہ کون لوگ ہیں ) اگر (ان کی طرف سے ) اذان کی آواز سنتے تو ان سے (جنگ کرنے سے ) باز رہتے اور اگر اذان کی آواز نہیں سنتے (اور اس پر قرینہ سے یہ ثابت ہو جاتا کہ (ان لوگوں میں مسلمان نہیں ہیں ) تو ان پر حملہ کر دیتے ۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ چنانچہ جب ہم (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد کے لئے ) خیبر روانہ ہوئے تو ان کی سرحدوں پر رات کے وقت پہنچے ، جب صبح ہو گئی اور (ان کی طرف سے ) اذان سنائی نہ دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سوار ہوئے اور میں ابوطلحہ کی سواری پر ان کے پیچھے بیٹھا اور (ہماری سواری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے اتنے قریب تھی کہ ) میرے پاؤں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سے لگتے تھے ، حضرت انس کہتے کہ جب صبح ہونے پر ) خبیر والے (ہماری آمد سے بے خبر اپنے کھیتوں میں جانے کے لئے ) اپنے پھاوڑے تھیلے (یعنی کھیتی باڑی کا سامان) لئے ہوئے (اپنے گھروں سے نکلے اور ہماری طرف آئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو (چیخ چیخ کر ) کہنے لگے ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ، اللہ کی قسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے لشکر آگئے ، یہ کہتے ہوئے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور قلعہ میں پناہ گزیں ہو گئے ، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس طرح بھاگتے ہوئے دیکھا تو (گویا اس کو ان کی شکست سے تعبیر کرتے ہوئے اور از راہ تفاول ) فرمایا " اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے ، خیبر برباد ہو گیا ، اس میں کوئی شک نہیں ، ہم (مسلمانوں کی جماعت یا انبیاء ) جب کسی قوم کے میدان میں (جنگ کے لئے ) اترتے ہیں تو اس ڈرائی گئی قوم کی صبح بڑی خراب ہو جاتی ہے ۔" ( بخاری ومسلم )

تشریح :
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جنگی معمول بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دشمنوں کی آبادی پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتے تو طلوع فجر کے بعد اس آبادی کے بارے میں غور وتامل فرماتے اور آبادی والوں کی حرکات وسکنات اور ان کے افعال کے ذریعہ ان کے عقائد کا پتہ چلاتے کہ یہ کون لوگ ہیں ، اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہوتا کہ یہ کفار کی آبادی ہے لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم محض اس احتمال کے پیش نظر یہ تامل فرماتے کہ شاید اس آبادی میں مسلمان بھی ہوں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آبادی کی طرف سے (فجر کی ') اذان سنائی دیتی تو اس کو اس بات کی علامت اور قرینہ سمجھ کر کہ یا تو یہ آبادی مسلمانوں ہی کی ہے یا اس آبادی میں مسلمان بھی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حملہ آور ہونے کا ارادہ موقوف فرما دیتے اور اس آبادی کو جنگی شعلوں کے حوالے نہ کرتے ، ہاں اگر اذان نہ سنائی دیتی تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر حملہ کر دیتے اور اس کو جنگی میدان میں تبدیل کر دیتے ، کیونکہ اس زمانے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ مسلمان اذان ترک کر سکتے ہیں ۔ اس لئے اس آبادی کی طرف سے اذان کی آواز نہ آنا اس بات کی واضح دلیل ہوتی کہ یہ آبادی کی طرف سے اذان کی آواز نہ آنا اس بات کی واضح دلیل ہوتی کہ یہ آبادی اللہ کے نام لیواؤں سے بالکل خالی ہے اور یہاں صرف کفر کا ٹھکانا ہے
خطابی کہتے ہیں کہ یہ اس بات کی مستحکم دلیل ہے کہ اذان اسلام کے شعار میں سے ہے اور اس کو ترک کرنا قطعًا جائز نہیں ہے بلکہ اگر کسی آبادی وشہر کے لوگ اذان ترک کرنے پر اتفاق کر کے بیٹھ جائیں اور اذان دینا چھوڑ دیں تو اس صورت میں امام وقت (اسلامی مملکت کے سربراہ ) پر واجب ہوگا کہ ان سے جنگ وقتال کرے اور ان کو اس عام گمراہی سے بچائے ، چنانچہ حنفی فقہاء نے بھی یہی لکھا ہے ۔
" اس میں کوئی شک نہیں ہم جب کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں الخ " یہ جملہ مستانفہ ہے ، جس کا مقصد ماقبل کی بات " خیبر کی بربادی " کی وضاحت کرنا اور اس کی وجہ بیان کرنا ہے ۔
" ڈرائی گئی قوم " سے مراد کفار ہیں ۔ اس جملہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ ان پر قتل وغارت گری کی صورت میں اللہ کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب کی وجہ سے ان کی صبح بڑی بھیانک ہوگئی ہے ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے پیدا کی کہ :
(فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَا ءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِيْنَ ) ۔ (37۔ الصافات : 77)
" کیا یہ (کفار ) ہمارے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں ؟ پس جب ان کے میدان میں ہمارا عذاب اترے گا تو ان کی صبح بڑی خراب ہوگی جن کو ڈارایا گیا ۔"
نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمن کے مقابلہ پر پہنچنے کے وقت (یعنی میدان جنگ میں ) نعرہ تکبیر (اللہ اکبر ) بلند کرنا مستحب ہے اور ایسے موقع کے مثل حالات کے امور محققہ میں قرآن کریم کے ذریعہ استشہاد جائز ہے چنانچہ اسی کے مثل وہ صورت تھی جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت کہا تھا :
(جَا ءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ )۔ 17۔ الاسراء : 81)
" حق آیا اور باطل گیا گزرا ہوا ۔"
نیز علماء نے کہا ہے کہ قرآن کریم سے ایسا استشہاد جو محاورات میں بطریق ضرب المثل ہو یا لغو وبے فائدہ گفتگو وکلام کے دوران ہو ، مکروہ ہے ۔ بلکہ ملا علی قاری کہتے ہیں کہ ہمارے بعض علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ کسی شخص کا اپنے مفہوم وادائیگی کے لئے اپنے الفاظ ، استعمال کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی قرآن کریم کی کوئی آیت یا کسی آیت کا ٹکڑا استعمال کرنا کفر ہے جیسے کوئی شخص اپنے مخاطب کو جس کا نام یحییٰ ہو ، کوئی کتاب دیتے وقت یوں خطاب کرے ۔ یا یحییٰ خذالکتباب بقوۃ (یہ دراصل ایک آیت کا ٹکڑا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے یحییٰ ! اس کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو ) یا کوئی شخص اپنے مخاطب کو مثلاً کھانا کھانے کے لئے یا آگے بڑھنے کے لے کہنا چاہتا ہے مگر اپنے الفاظ " کھاؤ " یا " آگے بڑھو " کی بجائے " بسم اللہ " کہتا ہے اور اسی طرح کی کسی بھی صورت میں قرآن کریم کے الفاظ کو استعمال کرنا ۔
نیز ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا (جآء الحق وزھق الباطل) فرمانا کہ استشہاد کے طور پر نہیں تھا بلکہ دراصل امتثال امر (اطاعت حکم ) کے طور پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا ۔
(قل جآء الحق وزھق الباطل) (الاسراء ١٧ : ٨١)
" یعنی (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیجئے کہ (دین ) حق (غالب ہونے کو ) آیا اور باطل گیا گزرا ہوا ۔"
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا (رب زدنی علماً) کہنا اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق تھا کہ :
(وقل رب زدنی علماً) ۔ (طہ ٢٠ : ١١٤)
یعنی (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) یوں دعا کیجئے کہ اے میرے رب ! مجھے زیادہ سے زیادہ علم عطا فرما۔"
غرضیکہ اس طرح کے جتنے منقولات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں وہ سب در اصل حکم الہٰی کی اطاعت وبجاآوری ہے اور یہ مستحب ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں