مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قیدیوں کے احکام کا بیان ۔ حدیث 1073

گرفتاری کے بدلے گرفتاری

راوی:

وعن عمران بن حصين قال : كانت ثقيف حليفا لبني عقيل فأسرت ثقيف رجلين من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم وأسر أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم رجلا من بني عقيل فأوثقوه فطرحوه في الحرة فمر به رسول الله صلى الله عليه و سلم فناداه : يا محمد يا محمد فيم أخذت ؟ قال : " بجريرة حلفائكم ثقيف " فتركه ومضى فناداه : يا محمد يا محمد فرحمه رسول الله صلى الله عليه و سلم فرجع فقال : " ما شأنك ؟ " قال : إني مسلم . فقال : " لو قلتها وأنت تملك أمرك أفلحت كل الفلاح " . قال : ففداه رسول الله صلى الله عليه و سلم بالرجلين اللذين أسرتهما ثقيف . رواه مسلم

اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ قبیلہ ثقیف ، بنو عقیل کا حلیف تھا ، چنانچہ جو قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابیوں کو گرفتار کر لیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو گرفتار کر لیا اور اس کو مضبوطی سے باندھ کر حرہ میں ڈال دیا ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گذرے تو اس (قیدی ) نے پکارا ' محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) !محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مجھے کس جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے؟" آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " اپنے حلیف ، قبیلہ ثقیف (کے لوگوں کے جرم میں یعنی قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے ہمارے دو مسلمانوں کو پکڑ لیا ہے ، ان کے بدلے میں تمہیں پکڑ لیا گیا ہے ۔" (یہ کہہ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس کے حال پر (اس جگہ ) چھوڑ دیا اور آگے بڑھ گئے ، اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر پکارا " محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! محمد! " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر رحم آگیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور فرمایا کہ تم " کس حال میں ہو ؟ " اس نے کہا کہ " میں مسلمان ہوں " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کاش !) تم یہ بات اس وقت کہتے ، جب تم خود اپنے اختیار کے مالک تھے (یعنی جب کہ تم قید ہونے سے پہلے اپنے اوپر اختیار رکھتے تھے اور تم پر کوئی دباؤ نہیں تھا اگر اس وقت بطریق رغبت کے یہ کہتے کہ میں مسلمان ہوں " تو تم نجات پا جاتے کامل نجات (یعنی دنیا میں تو یہ نجات ملتی کہ قید نہ ہوتے اور آخرت میں دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا پاتے ) " راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ان دونوں آدمیوں کے بدلے میں جن کو ثقیف نے گرفتار کیا تھا چھوڑ دیا ۔" (مسلم )

تشریح :
ثقیف " عرب کے ایک بڑے اور مشہور قبیلہ کا نام ہے ۔ جو بنو ہوازن کی ایک شاخ اور طائف میں آباد تھا ، اسی طرح " بنوعقیل " بھی ایک تھا ، یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے حلیف تھے ۔ زمانہ جاہلیت کے عرب میں یہ دستور تھا کہ قبائل آپس میں ایک دوسرے کے درمیان حلف وقسم کے ساتھ یہ عہد وپیمان کیا کرتے تھے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے برے بھلے کام کے ساتھی ہوں گے اور ہم میں سے کسی ایک کا دشمن دوسرے کا بھی دشمن اور کسی ایک کا دوست دوسرے کا بھی دوست ہوگا ، لیکن جب اسلام کا زمانہ آیا تو زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق وہ قسما قسمی تو جائز رہی جس کا تعلق حق اور جائز باتوں سے تھا لیکن جس کا تعلق ناحق اور ناجائز باتوں سے تھا اس کو ختم کر دیا گیا اور حکم دیا گیا کہ اسلام کا جو حلف ہے وہ کافی ہے ۔
" بنو عقیل کے ایک آدمی کو گرفتار کر لیا " یعنی قبیلہ ثقیف کے لوگوں نے جن دو صحابہ کو پکڑ کر اپنے یہاں قید کر لیا تھا ان کے بدلے میں مسلمانوں نے بنوعقیل ایک آدمی پکڑ کر اپنے یہاں باندھ دیا ، کیونکہ اس وقت قبائل کا باہمی دستور یہی تھا کہ ایک حلیف کے جرم میں دوسرے حلیف کے حلیف کے آدمی پکڑ لیا جاتا تھا چنانچہ مسلمانوں نے بھی اسی دستور کے مطابق عمل کیا اور بظاہر اس میں مصلحت بھی تھی ۔
" حرہ " مدینہ کے مضافات میں پہاڑی علاقہ کے اس قطعہ کو کہا جاتا تھا جس کی زمین کالی پتھریلی تھی ۔
" میں مسلمان ہوں الخ " ان الفاظ کے ذریعہ اس شخص نے گویا یہ بتانا چاہا کہ میں پہلے ہی سے مسلمان ہوں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو غیر مسلم ، مسلمانوں کی قید میں ہو اور وہ یہ دعوی کر لے کہ میں مسلمان ہوں تو اس کی بات کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک کہ اس کا دعوی گواہی کے ذریعہ ثابت نہ ہو جائے ۔ لیکن یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ ان الفاظ کے ذریعہ اس شخص کی یہ مراد ہو میں اب اسلام قبول کرتا ہوں ۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دعوی اسلام کو قبول نہیں کیا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہ تو ازراہ نفاق اپنے اسلام کا دعویٰ کر رہا ہے یا بطریق اضطرار وہ اس دعوے پر مجبور ہے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جھوٹا سمجھتے ہوئے دارالحرب جانے دیا ۔
اس اعتبار سے اس شخص کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معاملہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں