مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قیدیوں کے احکام کا بیان ۔ حدیث 1074

جنگ بدر کے قیدیوں میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد ابوالعاص کی رہائی کا واقعہ

راوی:

عن عائشة رضي الله عنها قالت : لما بعث أهل مكة في فداء أسرائهم بعثت زينب في فداء أبي العاص بمال وبعثت فيه بقلادة لها كانت عند خديجة أدخلتها بها على أبي العاص فلما رآها رسول الله صلى الله عليه و سلم رق لها رقة شديدة وقال : " إن رأيتم أن تطلقوا لها أسيرها وتردوا عليها الذي لها " فقالوا : نعم وكان النبي صلى الله عليه و سلم أخذ عليه أن يخلي سبيل زينب إليه وبعث رسول الله صلى الله عليه و سلم زيد بن حارثة ورجلا من الأنصار فقال : " كونا ببطن يأحج حتى تمر بكما زينب فتصحباها حتى تأتيا بها " . رواه أحمد وأبو داود

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب (جنگ بدر میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار مکہ پر غلبہ اور فتح عطا فرمائی اور ان میں سے کچھ کو قتل کر دئیے گئے اور کچھ قیدی بنا کر مدینہ لائے گئے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رہائی کے بدلے میں مال طلب کیا تو) اہل مکہ نے اپنے قیدیوں کی رہائی کا معاوضہ روانہ کیا ، (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ) حضرت زینب نے بھی (اپنے شوہر ) ابوالعاص کی رہائی کے بدلے میں کچھ مال بھیجا جس میں ان کا وہ ہار بھی تھا جو (پہلے ) حضرت خدیجہ کے پاس تھا اور اس کو انہوں نے ابوالعاص کے ساتھ زینب کے نکاح کے وقت ان کو (جہیز میں ) دیا تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہار دیکھا تو زنیب کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہوگئی (یعنی ) اس وقت اپنی بیٹی حضرت زینب کی غربت وتنہائی کا احساس کر کے اور حضرت خدیجہ کی رفاقت کی یاد تازہ ہو جانے کی وجہ سے جن کے گلے میں وہ ہار رہتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل امنڈ آیا ) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ سے ) فرمایا کہ " اگر تم مناسب سمجھو تو زینب کی خاطر اس کے قیدی (ابو العاص ) کو (بلا معاوضہ ) رہا کر دو اور اس (زینب ) کو اس کی (وہ سب ) چیزیں (جو اس نے ابوالعاص کی رہائی کی لئے بھیجی ہیں ) واپس کر دو ۔" صحابہ نے عرض کیا کہ بہتر ہے (ہم زینب کا مال واپس کر کے ابوالعاص کو بلا معاوضہ رہا کر دیتے ہیں ) چنانچہ (ابو العاص کو رہا کر دیا گیا اور رہائی کے وقت ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالعاص سے یہ عہد وعدہ لیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زینب کے آنے کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالیں (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالعاص کو رہا کرتے وقت ان سے کہا کہ یہ پختہ وعدہ کرو کہ مکہ پہنچ کر زینب کو میرے پاس مدینہ آنے دو گے اور اس کا راستہ نہیں روگے ) اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زید ابن حارثہ اور انصار میں سے ایک شخص کو (مکہ ) روانہ کیا اور ان سے کہا کہ تم لوگ بطن یا جج میں ٹھہر جانا ، جب زنیب (مکہ سے روانہ ہو کر ) وہاں تمہارے پاس آ جائے تو تم اس کے ساتھ ہو جانا اور (مدینہ ) لے آنا ۔" (احمد ، ابوداؤد )

تشریح :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی صاحبزادی تھیں ، اور ابوالعاص ابن ربیع جو عبدالعزی ابن عبد شمس ابن عبد مناف کے پوتے تھے ، ام المؤمنین حضرت خدیجہ کے بھانجے تھے اور حضرت زنیب کے شوہر ہونے کی وجہ سے داماد بھی تھے ۔
حضرت خدیجہ ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلی زوجہ مطہرہ ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد علاوہ ابراہیم کے حضرت خدیجہ ہی کے بطن سے تھی ۔ ابراہیم جن کا کم سنی میں انتقال ہوگیا تھا حضرت ماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے ۔
حضرت زینب جو ایک کافر یعنی ابوالعاص کے نکاح میں تھیں تو اس کا سبب یہ تھا کہ اس وقت مسلمان عورت کا کافر مرد کے ساتھ نکاح جائز تھا ، نیز مکہ سے حضرت زینب کو لانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ایسے دو آدمیوں کا بھیجا جانا جو حضرت زینب کے شرعی محرم نہیں تھے ایک بالکل مخصوص نوعیت کا معاملہ تھا اور وہ ایک ایسی صورت تھی جو ( امن ) کی صورت کہلائی جا سکتی ہے کہ حضرت زینب چونکہ صاحبزادی رسول تھیں اس لئے ان کے ساتھ کسی غیر محرم کا ہونا کسی قسم کے شک وشبہ سے بالا تر تھا اور کسی خوف وخطرہ کے پیدا ہونے کا سوال نہیں تھا ۔ ویسے یہ ایک عام مسئلہ ہے کہ عورت کو کسی نا محرم کے ساتھ سفر کرنا جائز نہیں ہے
" بطن یا حج " ایک جگہ کا نام تھا جو مکہ سے تقریبا آٹھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ اس لفظ " یا جج " کو صاحب قاموس نے یا اور دونوں جیم کے ساتھ یعنی " یا جج" لکھا ہے اور علماء نے اس کو نون اور یا و جیم کے ساتھ یعنی " ناجج " بھی نقل کیا ہے چنانچہ مشکوۃ المصابیح کے اکثر قدیم نسخوں میں یہ لفظ " ناجج" ہی مذکور ہے ۔
حضرت زینب جب مکہ سے مدینہ آگئیں تو ابوالعاص مکہ ہی میں رہے اور کفر کی حالت پر قائم رہے ، کچھ دنوں کے بعد ان کو تجارت کی غرض سے شام کا سفر کرنا پڑا ، جب مدینہ کے مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ابوالعاص اس سفر میں مدینہ کے قریب سے گذرنے والے ہیں تو انہوں نے یہ اسکیم بنائی کہ ابوالعاص جیسے ہی مدینہ کے علاقہ میں داخل ہوں ان کا سارا مال چھین لیا جائے ، اس اسکیم کی خبر حضرت زینب کو پہنچی تو ان کا دل شوہر کی محبت میں بے تاب ہوگیا ، فورًا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ " یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا مسلمانوں میں سے کسی ایک کے عہد امان کا اعتبار نہیں ہے ۔" حضرت زینب نے کہا کہ " تو پھر یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم گواہ رہئے کہ میں ابوالعاص کو عہد امان دیتی ہوں ۔ جب صحابہ نے یہ حال دیکھا تو ان کے لئے اپنی اسکیم پر عمل کرنا قطعًا ممکن نہیں رہا تا ہم وہ بغیر ہتھیار واسلحہ کے مدینہ کے قریب ابوالعاص کی گزر گاہ پر پہنچے اور ان سے ملے تو کہا کہ ابوالعاص تم قریش کے ایک معزز شریف اور صاحب حیثیت فرد ہو اور پیغمبر اسلام کے چچا کے بیٹے بھی ہو ( اس نسبت سے تمہارے حق میں اس سے بہتر اور کوئی راہ نہیں ہے کہ ) تم مسلمان ہو جاؤ تا کہ ( تمہیں آخرت کی فلاح ونجات تو ملے ہی گی ) تمہارا یہ سب مال بھی تمہارے ہی پاس رہے ۔" ابوالعاص نے ( یہ سن کر ) کہا " تم نے جو یہ کہا ہے ( کہ مسلمان ہو جانے کی وجہ سے مال محفوظ رہے گا ) تو یہ ایک قطعی نامناسب اور غیرموزوں بات ہے میں اس سے پناہ مانگتا ہوں کہ اپنے اسلام کو مال ودولت ( کی کثافت ) سے گندہ کروں ! " اس کے بعد ابوالعاص مکہ روانہ ہوگئے اور وہاں پہنچ کر لوگوں کا مال ان کے سپرد کیا اور پھر ( سب کو جمع کر کے ) کہا کہ مکہ والو! تم لوگوں کے مال تمہارے پاس پہنچ گئے ؟ انہوں نے کہا کہ " ہاں ، پہنچ گئے ۔" پھر ابوالعاص نے ان کے سامنے اعلان کیا کہ " تم سب گواہ رہو!" میں مسلمان ہو گیا ہوں اشھدان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا رسول اللہ ۔
اس کے بعد حضرت ابوالعاص نے مکہ میں اپنا گھر بار ، دوست عزیز ، اور مال واسباب سب کچھ چھوڑ کر راہ ہجرت اختیار کی اور مدینہ پہنچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگئے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بکمال محبت والفت ان کو خوش آمدید کہا، اور حضرت زینب کو ان کی سپردگی میں دے دیا ۔
اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالعاص کے مدینہ پہنچنے پر حضرت زینب سے ان کا دوبارہ ( از سر نو ) نکاح کیا تھا یا پہلا ہی نکاح باقی رکھا تھا ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوالعاص سے بہت زیادہ تعلق تھا ، خاص طور سے ان کے مسلمان ہو جانے کے بعد تو آپ ان سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اور ان سے بہت خوش رہا کرتے تھے ۔ وہ حضرت ابوبکر صدیق کے دور خلافت میں جنگ یمامہ کے دوران شہید ہوئے ۔

یہ حدیث شیئر کریں