مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ امان دینے کا بیان ۔ حدیث 1083

معاہدہ کی پوری طرح پابندی کرنے چاہئے

راوی:

وعن سليم بن عامر قال : كان بين معاوية وبين الروم عهد وكان يسير نحو بلادهم حتى إذا انقضى العهد أغار عليهم فجاء رجل على فرس أو برذون وهو يقول : الله أكبر الله أكبر وفاء لا غدر فنظر فإذا هو عمرو ابن عبسة فسأله معاوية عن ذلك فقال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من كان بينه وبين قوم عهد فلا يحلن عهدا ولا يشدنه حتى يمضي أمده أو ينبذ إليهم على سواء " . قال : فرجع معاوية بالناس . رواه الترمذي وأبو داود

اور حضرت سلیم ابن عامر (تابعی) کہتے ہیں کہ امیر معاویہ اور رومیوں کی درمیان (یہ ) معاہدہ ہوا تھا کہ (اتنے دنوں تک ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے ) اور حضرت معاویہ ( اس معاہدہ کے زمانہ میں ) رومیوں کے شہروں میں گشت ( کر کے حالات کا اندازہ ) لگایا کرتے تھے تاکہ جب معاہدہ کی مدت گذر جائے تو وہ ان ( رومیوں ) پر یکبارگی ٹوٹ پڑیں ( اور ان کے ٹھکانوں کو تخت و تاراج کر دیں جب کہ اگر وہ گشت کے ذریعہ ان کے حالات اور ٹھکانوں کا جائزہ لینے کی بجائے اطمینان کے ساتھ اپنے کیمپ میں پڑے رہتے اور پھر معاہدہ کی مدت ختم ہونے پر حملہ کرتے تو ان رومیوں کے چوکنا ہونے کی وجہ سے خاطر خواہ جنگی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا تھا پھر ( انہی دنوں میں جب کہ امیر معاویہ اپنے لشکر والوں کے ساتھ رومیوں کے شہر میں پھر رہے تھے ) ایک شخص عربی یا ترکی گھوڑے پر سوار یہ کہتے ہوئے آئے کہ " اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، وفا کو ملحوظ رکھو نہ کہ بد عہدی کو ! یعنی تم پر معاہدہ کو پورا کرنا لازم ہے نہ کہ تم معاہدہ کی خلاف ورزی کرو ( گویا انہوں نے یہ واضح کیا کہ تم لوگ معاہدہ کے زمانے میں دشمنوں کے شہروں میں گشت لگاتے ہو تو یہ اپنے عہد کی پاسداری کی علامت نہیں ہے بلکہ یہ عہد شکنی اور معاہدہ کی خلاف ورزی کے حکم میں داخل ہے) جب لوگوں نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ شخص ( ایک صحابی ) حضرت عمرو ابن عبسہ ہیں ، حضرت امیر معاویہ نے ان سے اس بات کو پوچھا ( کہ رومیوں کے شہروں میں ہمارا پھرنا ، عہد شکنی کے مرادف کے سے ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ " جس شخص اور کسی قوم کے درمیان معاہدہ ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے عہد کو نہ توڑے اور نہ باندھے ، آ نکہ اس معاہدہ کی مدت گذر جائے یا وہ ان کو مطلع کر کے برابری کی بنیاد پر اپنا عہد توڑے دے ( یعنی مجبوری یا مصلحت کی بناء پر مدت کے دوران ہی معاہدہ توڑنا ضروری ہو گیا ہو اور فریق مخالف کو پہلے سے آگاہ کر دیا گیا ہو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا ہم اس کو توڑتے ہیں ، اب ہم اور تم دونوں برابر ہیں کہ جس کی ( جو مرضی ہو کرے ) حدیث کے راوی حضرت سلیم بن عامر کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ ! حضرت ابن عبسہ کی یہ بات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سن کر " اپنے لوگوں کے ساتھ ( رومیوں کے شہر سے اپنے کیمپ میں ) واپس چلے آئے ۔" (تر مذی ، ابوداؤد )

تشریح :
" اور نہ باندھے " کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کسی بھی فعل سے معاہدہ کے مقصد ومنشاء میں کوئی تغیر تبدیلی نہ کرے ! گویا اس جملہ کی مراد ایفاء عہد میں کسی طرح کا تغیر نہ کرنا ہے ، ورنہ شدنہ کہ جس کے معنی اپنے عہد کو باندھنا اور مستحکم کرنا ہے ، شریعت کی نظر میں مستحسن و مطلوب ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں