مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ امان دینے کا بیان ۔ حدیث 1084

ایفاء عہد اور احتر ام قاصد کی اہمیت

راوی:

وعن أبي رافع قال : بعثني قريش إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فلما رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم ألقي في قلبي الإسلام فقلت : يا رسول الله إني والله لا أرجع إليهم أبدا قال : " إني لا أخيس بالعهد ولا أحبس البرد ولكن ارجع فإن كان في نفسك الذي في نفسك الآن فارجع " . قال : فذهبت ثم أتيت النبي صلى الله عليه و سلم فأسلمت . رواه أبو داود
(2/405)

3982 – [ 6 ] ( لم تتم دراسته )
وعن نعيم بن مسعود أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال لرجلين جاءا من عند مسيلمة : " أما والله لولا أن الرسل لا تقتل لضربت أعناقكما " . رواه أحمد وأبو داود

اور حضرت ابورافع کہتے ہیں کہ ( صلح حدیبیہ کے موقع پر ) کفار قریش نے مجھے ( اپنا قاصد بنا کر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ، جب میری نظر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی ، تو ( بے اختیار میرے دل میں اسلام ( کی صداقت و حقانیت ) نے گھر کر لیا ، میں نے عرض کیا کہ " یا رسول اللہ اللہ کی قسم ، میں اب کبھی بھی ان ( کفار قریش کے پاس واپس نہیں جاؤں گا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " میں نہ تو عہد کو توڑا کرتا ہوں اور نہ قاصدوں کو روکا کرتا ہوں ، البتہ تم ( اب تو ) واپس چلے جاؤ ، اگر تمہارے دل میں وہ چیز ( یعنی اسلام ) قائم رہے وقت موجود ہے تو پھر ( میرے پاس ) چلے آ نا ۔" حضرت ابورافع کہتے ہیں کہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ، میں (مکہ) واپس ہو گیا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آ گیا اور اسلام قبول کر لیا ( یعنی اپنے اسلام کا اعلان کر دیا ۔ " ( ابوداؤد )

تشریح :
چونکہ ابورافع کفار مکہ کی طرف سے کوئی پیغام لے کر آئے تھے اس لئے آنحضرت نے ان کو اپنے پاس نہیں روکا ، تاکہ وہ مکہ واپس جا کر کفار قریش کو ان کے پیغام کا جواب دے دیں ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جو حکم دیا اس کا مطلب یہی تھا کہ اسلام نے تمہارے دل میں گھر لیا ہے ، اور اب مسلمان ہونے سے تمہیں کوئی چیز نہیں روک سکتی ، لیکن احتیاط اور ایفاء عہد کا تقاضا یہ ہے کہ تم ابھی اپنے اسلام کا اظہار و اعلان نہ کرو بلکہ پہلے تم مکہ واپس جاؤ او کفار قریش نے جو ذمہ داری تمہارے سپرد کی تھی اس کو پورا کر آؤ یعنی انہوں نے تمہیں جس بات کا جواب لانے کے لئے یہاں بھیجا تھا ان کو وہ جواب پہنچاؤ اور پھر اس کے بعد وہاں سے ہمارے پاس آ کر اپنے اسلام کا اظہار و اعلان کرنا ۔

اور حضرت نعیم ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں آدمیوں سے فرمایا جو مسیلمہ کے پاس سے آئے تھے کہ " یاد رکھو ! اللہ کی قسم اگر قاصد کو مارنا شرعی طور پر ممنوع نہ ہوتا تو میں تمہاری گردنیں اڑا دیتا ۔" (احمد ' ابوداؤد )

تشریح :
مسیلمہ ایک شخص کا نام ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنی نبوت کا دعویٰ کیا تھا اسی لئے اس کو مسلیمہ کذاب کہا جاتا ہے ۔ وہ دو شخص جو مسیلمہ کذاب کے پاس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تھے ان میں سے ایک کا نام عبداللہ ابن نواحہ تھا اور دوسرے کا نام ابن اثال تھا ان دونوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ کہا تھا کہ نشھد ان مسیلمۃ رسول اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے ، اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خفا ہو کر مذکورہ الفاظ ارشاد فرمائے ۔

یہ حدیث شیئر کریں