مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان ۔ حدیث 1088

مقتول سے چھینا ہوا مال قاتل کا ہے

راوی:

وعن أبي قتادة قال : خرجنا مع النبي صلى الله عليه و سلم عام حنين فلما التقينا كانت للمسلمين جولة فرأيت رجلا من المشركين قد علا رجلا من المسلمين فضربته من ورائه على حبل عاتقه بالسيف فقطعت الدرع وأقبل علي فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت ثم أدركه الموت فأرسلني فلحقت عمر بن الخطاب فقلت : ما بال الناس ؟ قال : أمر الله ثم رجعوا وجلس النبي صلى الله عليه و سلم فقال : " من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه " فقلت : من يشهد لي ؟ ثم جلست ثم قال النبي صلى الله عليه و سلم مثله فقمت فقال : " ما لك يا أبا قتادة ؟ " فأخبرته فقال رجل : صدق وسلبه عندي فأرضه مني فقال أبو بكر : لا ها الله إذا لا يعمد أسد من أسد الله يقاتل عن الله ورسوله فيعطيك سلبه . فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " صدق فأعطه " فأعطانيه فاتبعت به مخرفا في بني سلمة فإنه لأول مال تأثلته في الإسلام

اور حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ ( فتح مکہ کے بعد ) غزوہ حنین کے سال ہم ( جہاد کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے ، جب کافروں سے ہمارا مقابلہ ہوا تو ( کچھ دیر کے لئے ) مسلمانوں کو شکست کی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا ، میں نے دیکھا کہ ایک مشرک ایک مسلمان پر غالب آ گیا ہے ، میں نے اس کے پیچھے سے اس کی گردن کی رگ پر تلوار کا ( بھر پور ) وار کر کے اس کی زرہ کاٹ ڈالی ، مجھ پر جھپٹ پڑا اور اس نے اتنے زور سے مجھے دبوچا کہ اس کی وجہ سے موت کا مزہ آ گیا ( یعنی میں مرنے کے قریب ہو گیا ، پھر ( میرے ایک اور وار سے ) موت نے اسے دبا لیا اور میں اس سے چھوٹ گیا ، اس کے بعد میں حضرت عمر ابن خطاب سے ملا اور کہا کہ " لوگوں کو کیا ہو گیا (کہ دشمن کے مقابلہ سے بھاگ رہے ! ؟ ) انہوں نے کہا " اللہ کا حکم یہی ہے یعنی یہ جو کچھ ہو رہا ہے قضا وقدر الہیٰ کے مطابق ہو رہا ہے ۔" پھر لوگ ( اس عارضی پسپائی کے بعد دوبارہ لڑنے کے لئے میدان جنگ میں ) واپس آ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک جگہ ) بیٹھ گئے اور فرمایا کہ " جو شخص دشمن کے ) کسی آدمی کو قتل کر دے اور اس کے قتل کرنے کا کوئی گواہ ہو ( اور خواہ ایک ہی گواہ ہو تو مقتول کا چھینا ہوا مال اسی ( قتل کرنے والے ) شخص کا ہوگا ۔" ( یہ سن کر میں کھڑا ہوا اور ارادہ کیا کہ اس مشرک کو قتل کرنے کا واقعہ بیان کروں ، لیکن ( دل میں ) میں نے کہا کہ " میری گواہی کون شخص دے گا ( کہ میں نے اس مشرک کو قتل کیا ہے ۔" ) آخر میں بیٹھ گیا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح پھر فرمایا ( کہ جو شخص دشمن کے کسی آ دمی کو قتل کرنے کا کوئی گواہ ہو تو مقتول کا چھینا ہوا مال اسی کا ہوگا ) میں نے پھر ( کھڑے ہو کر اپنے واقعہ بیان کرنا چاہا لیکن میں نے دل میں ) کہا کہ " میری گواہی کون شخص دے گا ! ؟ اور میں پھر بیٹھ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اسی طرح (تیسری مرتبہ ) فرمایا میں ( جب اس مرتبہ بھی ) کھڑا ہوا ( لیکن زبان سے کچھ نہ کہہ سکا ) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " ابوقتادہ ! کیا بات ہے (تم کسی غرض مند اور طالب حاجت کی طرح بار بار کھڑے ہوتے ہو اور بیٹھ جاتے ہو مگر زبان سے کچھ نہیں کہتے ؟)" تب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا ( کہ میں نے فلاں مشرک کو قتل کیا ہے ) " ایک شخص نے ( میری بات سن کر ) کہا کہ " ابوقتادہ سچ کہتے ہیں اور اس مشرک کا مال میرے پاس موجود ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو میری طرف سے راضی کر دیجئے ( کہ یہ اپنے حق سے دستبر دار ہو جائیں اور ان کو اس مشرک کے مال کے عوض کوئی اور چیز دے دی جائے یا ان کو اس بات پر رضا مند کر دیجئے کہ یہ میرے ساتھ کسی اور طرح مصالحت کر لیں ) ۔ " حضرت ابوبکر صدیق نے ( یہ سن کر اس شخص سے ) کہا کہ " نہیں ، اللہ کی قسم ایسا نہیں ہو سکتا ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں ان ( ابوقتادہ ) کی مرضی کے خلاف کوئی ارادہ نہیں کریں گے ابوقتادہ اللہ کے شیروں میں سے ایک شیر ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خو شنودی کے لئے ( دشمن سے ) لڑتا ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جس مال پر ان ( ابوقتادہ ) کا حق ہے وہ تمہیں دے دیں !؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا کہ " ابوبکر ٹھیک کہتے ہیں ، تم ابوقتادہ کو اس مشرک ( مقتول ) کا مال دے دو ۔" چنانچہ اس شخص نے اس کا مال مجھ کو دے دیا اور میں نے ( بعد میں ) اس مال کے ذریعہ ایک باغ خریدا جو قبیلہ بنو سلمہ میں واقع تھا اور یہ سب سے پہلا مال تھا جو مجھے اسلام لانے کے بعد حاصل ہوا ۔" ( بخاری ومسلم )

تشریح :
اس غزوہ ( جنگ ) میں مسلمانوں کو کچھ دیر کے لئے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ اسلامی لشکر کے کچھ لوگوں نے ایک موقع پر پسپائی اختیار کی جس سے دشمن کے لشکر کو بظاہر حاوی ہونے کا موقع مل گیا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں اپنی جگہ پر قائم رہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک خچر پر سوار تھے جس کی باگ حضرت عباس ابن عبد المطلب اور حضرت ابوسفیان بن الحارث نے تھام رکھی تھی ۔ اس عارضی پسپائی کے موقع پر جب کہ اسلامی لشکر میں تقریبا افراتفری کا عالم تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف بڑی بہادری کے ساتھ دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہے بلکہ آگے بڑھ بڑھ کر دشمن کے لشکر پر تن تنہا حملہ کرنے کا ارادہ کرتے تھے اور یہ فرمائے جاتے تھے ۔
انا النبی لا کذب ، انا ابن عبد المطلب ۔
" یعنی میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں ، اور جھوٹ نہیں کہتا سچا نبی ہوں ۔"
لیکن یہ دونوں حضرات جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی باگ تھام رکھی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیتے تھے ، آخر کار حق تعالیٰ نے اسلامی لشکر کو ثابت قدمی بخشی اور اس نے دوبارہ دشمن پر حملہ کر کے اس کے لشکر کو تہس نہس کر دیا اور آخر فتح حاصل کی ۔

یہ حدیث شیئر کریں