مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان ۔ حدیث 1094

مال فئی کا حکم

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " أيما قرية أتيتموها وأقمتم فيها فسهمكم فيها وأيما قرية عصت الله ورسوله فإن خمسها لله ولرسوله ثم هي لكم " . رواه مسلم

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس بستی میں تم جاؤ اور اس میں قیام کرو تو اس ( کے مال ) میں تمہارا حصہ ہے اور جو بستی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے تو اس ( کے مال ) میں پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے ہے ، اور بقیہ تمہارا ہے ۔" ( مسلم )

تشریح :
" اور اس میں قیام کرو " کا مطلب یہ ہے کہ تم جہاد کے لئے کسی بستی میں گئے اور بستی میں گئے اور بستی والے لڑے بھڑے بغیر اس بستی کو چھوڑ کر بھاگ گئے یا انہوں نے تمہارے ساتھ مصالحت کر کے اس بستی اور اپنے آپ کو تمہارے حوالے کر دیا اور تم اس میں قیام پذیر ہو گئے ۔
" تو اس میں تمہارا حصہ ہے " کے ذریعہ یہ واضح کیا گیا ہے کہ مذکورہ بستی سے جو مال و اسباب تمہارے ہاتھ لگے گا وہ صرف تمہارا حق نہیں ہوگا بلکہ تمہارے اور ان مجاھدین کے درمیان مشترک رہے گا جو تمہارے ساتھ جہاد کے لئے نہیں جا سکے ہیں بلکہ اپنے گھروں میں رہ گئے ہیں کیونکہ اس طرح کا مال ( جو مسلمانوں کو کفار سے جنگ و جدل کے بغیر حاصل ہو ) " فئی " کہلاتا ہے اور مال فئی کا حکم یہ ہے کہ وہ صرف انہی مجاھدین کے لئے مخصوص نہیں ہوتا جو جنگ میں شریک ہونے کے لئے اپنے گھروں سے نکلے ہوں ۔
" جو بستی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے الخ" کا مطلب یہ ہے کہ جس بستی کے لوگوں نے نہ تو دعوت اسلام قبول کی اور نہ مصالحت کے ذریعہ اپنے آپ کو تمہارے حوالے کیا بلکہ تمرد و سرکشی کی راہ اختیار کر کے تمہارے ساتھ جنگ کی اور تم نے لڑائی اور طاقت کے ذریعہ ان پر غلبہ حاصل کر لیا تو اس صورت میں اس بستی سے جو مال اسباب ہاتھ لگے گا وہ " مال غنیمت " کہلائے گا ، اس مال میں سے پہلے خمس یعنی پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے علیحدہ کر دیا جائے گا اور پھر جو باقی بچے گا وہ اس جنگ میں شریک ہونے والے مجاہدین کے درمیان تقسیم کیا جائے گا ۔
اس سے معلوم ہوا کہ خمس صرف مال غنیمت میں سے نکالا جائے گا مال فئی میں سے بھی نکالا جائے اس اعتبار سے یہ حدیث حضرت امام شافعی کے خلاف مسلک کی دلیل ہے ۔
بعض حنفی علماء نے اس حدیث کی تشریح یوں کی ہے پہلے جزو سے مراد وہ صورت ہے جس میں مسلمانوں نے کسی آبادی و بستی کو اس حال میں فتح کیا ہو کہ ان کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ رہے ہوں اور دوسرے جزو سے مراد وہ صورت ہے جس میں مسلمانوں نے کسی آبادی وبستی کو اس حال میں فتح کیا ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود اس جہاد میں شریک رہے ہوں ، لہذا اس دوسری صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خمس وصول فرماتے تھے اور باقی لشکر والوں کے درمیان تقسیم ہوتا تھا ۔

یہ حدیث شیئر کریں