مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ صلح کا بیان ۔ حدیث 1140

معاہدہئ حیبیہ کی کتابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلم سے

راوی:

عن البراء بن عازب قال : اعتمر رسول الله صلى الله عليه و سلم في ذي القعدة فأبى أهل مكة أن يدعوه يدخل مكة حتى قاضاهم على أن يدخل يعني من العام المقبل يقيم بها ثلاثة أيام فلما كتبوا الكتاب كتبوا : هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله . قالوا : لا نقر بها فلو نعلم أنك رسول الله صلى الله عليه و سلم ما منعناك ولكن أنت محمد بن عبد الله فقال : " أنا رسول الله وأنا محمد بن عبد الله " . ثم قال لعلي بن أبي طالب : " أمح : رسول الله " قال : لا والله لا أمحوك أبدا فأخذ رسول الله صلى الله عليه و سلم وليس يحسن يكتب فكتب : " هذا ما قاضى عليه محمد بن عبد الله : لا يدخل مكة بالسلاح إلا السيف في القراب وأن لا يخرج من أهلها بأحد إن أراد أن يتبعه وأن لا يمنع من أصحابه أحدا إن أراد أن يقيم بها " فلما دخلها ومضى الأجل أتوا عليا فقالوا : قل لصاحبك : اخرج عنا فقد مضى الأجل فخرج النبي صلى الله عليه و سلم

" حضرت براء ابن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماہ ذیقعدہ (٦ھ ) میں عمرہ کے لئے ( مدینہ سے ) تشریف لے گئے مگر اہل مکہ نے اس سے انکار کر دیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں داخل ہونے کا موقع دے دیں ( یعنی انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کو مکہ میں آنے سے روک دیا ) تا آنکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ سے اس بات پر مصالحت کرلی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ( آئندہ سال ) مکہ میں آئیں اور اس وقت بھی ( صرف ) تین دن مکہ میں قیام کریں، چنانچہ جب صلح نامہ لکھا گیا تو ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ) صحابہ کرام نے ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی اس طرح لکھا کہ " یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کی ہے اہل مکہ نے ( یہ الفاظ دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا " ہم تمہاری رسالت کو تسلیم نہیں کر تے اگر ہمارا علم یہ ہوتا ( یعنی ہمیں اس پر اعتقاد ہوتا ) کہ تم اللہ کے رسول ہو تو ہم تمہیں ( مکہ میں داخل ہونے سے ) روکتے ہی کیوں، البتہ ( ہم تو صرف اتنا مانتے ہیں کہ ) تم محمد ہو جو عبداللہ کے بیٹے ہیں، لہٰذا اس صلح نامہ میں محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبداللہ لکھو ) ۔ " آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ " میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں ( یہ محض تمہاری ضد اور ہٹ دھرمی ہے ورنہ تم خوب جانتے ہو میری یہ دونوں صفتیں یعنی اللہ کا رسول ہونا اور محمد ابن عبداللہ ہونا آپس میں اس طرح لازم ملزوم ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو ہی نہیں سکتیں، لہٰذا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دونوں کو ذکر کیا جائے یا ایک ہی کو ذکر کر دیا جائے ) " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا ( جو صلح نامہ لکھ رہے تھے ) کہ " رسول اللہ لفظ کو ہٹادو ۔ " حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ " اللہ کی قسم ! میں تو آپ کا نام کبھی بھی نہیں مٹاسکتا ۔ " ( یہ سن کر ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حضرت علی کے ہاتھ سے وہ صلح نامہ ) لے لیا اور باوجود یکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( رسول اللہ کا لفظ مٹا کر ) یہ لکھا کہ " یہ وہ معاہدہ ہے جس پر محمد ابن عبداللہ نے مصالحت کی ہے ( اور اس معاہدہ میں یہ شرطیں تھیں ) کہ وہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ ) مکہ میں ہتھیاروں کے ساتھ داخل نہیں ہوں گے الاّ یہ کہ ان کی تلواریں نیاموں میں ہوں، اور یہ کہ اگر اہل مکہ میں سے کوئی شخص آپ کے ساتھ جانے کا ارادہ کرے تو اس کو مکہ سے جانے نہیں دیا جائے گا ( یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں آئیں اور پھر واپس جانے لگیں تو اہل مکہ میں سے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے کر نہ جائیں ) اور یہ کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کوئی شخص مکہ میں ٹھہر جانے کا ارادہ کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ( مکہ میں ٹھہرنے سے ) منع نہیں کریں گے ۔ " چنانچہ جب ( اگلے سال ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف لائے اور (مکّہ میں ٹھہر نے کی تین دن کی ) وہ مدت ( جو معاہدہ صلح میں طے پائی تھی ) گذر گئی ( یعنی تین دن پورے ہونے کو ہوئے ) تو اہل مکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ " تم اپنے سردار ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کہو کہ ( طے شدہ ) مدت پوری ہو گئی ہے اب ہمارے شہر سے چلے جاؤ ۔ " چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے روانہ ہوگئے۔ " ( بخاری ومسلم )

تشریح :
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ کو مٹانے سے جو انکار کیا گویا وہ یہ سمجھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بطریق وجوب نہیں ہے ورنہ وہ ہرگز انکار نہ کر تے، اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ انکار نہیں تھا بلکہ عین اتباع کے درجہ کی چیز تھی کیونکہ اس انکار کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تئیں وہ غایت محبت اور انتہائی عقیدت تھی جو حضرت علی کرام اللہ وجہہ کی واحد سرمایہ روح و جان بھی تھی اور ان کی کائنات تسلیم و رضاء بھی، آخر وہ کس دل سے یہ گوارہ کر سکتے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اس سب سے بڑی حقیقت کو مٹا دیں جس کو صفحہ قرطاس پر انہیں کے قلم نے الفاظ کی صورت میں مرتسم کیا تھا اور جس کی ابدی سچائی کو دنیا بھر کے قلب و ذہن میں راسخ کرنا ہی انکا حاصل ایمان بھی تھا اور مقصد حیات بھی ۔
یہ بات علماء کے درمیان اختلافی نوعیت کی ہے کہ اس صلح نامہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لکھا تھا جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔ چنانچہ اکثر حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ یہ صلح نامہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قطعاً نہیں لکھا تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھ ہی سکتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو " امی " فرمایا ہے اور امی وہی شخص ہوتا ہے جو نہ لکھ سکے اور نہ پڑھ سکے ۔ جب کہ دوسرے حضرات یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس صلح نامہ کو لکھنا ایک حقیقت ہے کیونکہ اگرچہ آپ کو نبی امی فرمایا گیا ہے لیکن جب آپ کی نبوت و رسالت کے بارے میں پیدا ہونے والے شکوک شبہات ختم ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول اللہ ہونے کے دلائل روز روشن کی طرح عیاں ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو لکھنے پر قادر کر دیا، اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھنا بطریق معجزہ کے تھا ۔ اس حدیث کا ظاہری مفہوم ان حضرات کی دلیل ہے ۔
لیکن اوّل الذکر حضرات کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھا " سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرام اللہ وجہہ کو لکھنے کا حکم دیا اور یہ جملہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہا جائے کہ بادشاہ نے فلاں شہر کو تعمیر کیا ۔ ظاہر ہے اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے شہر کو تعمیر کیا بلکہ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ بادشاہ نے اس شہر کو تعمیر کرنے کا حکم دیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں