مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ فئی تقسیم کر نے سے متعلق ۔ حدیث 1154

قضیہ فدک میں حضرت عمر کا استدلال

راوی:

4061 – [ 7 ] ( لم تتم دراسته )
وعنه قال : قرأ عمر بن الخطاب رضي الله عنه : ( إنما الصدقات للفقراء والمساكين )
حتى بلغ ( عليم حكيم )
فقال : هذه لهؤلاء . ثم قرأ ( واعلموا أن ما غنمتم من شيء فأن لله خمسه وللرسول )
حتى بلغ ( وابن السبيل )
ثم قال : هذه لهؤلاء . ثم قرأ ( ما أفاء الله على رسوله من أهل القرى )
حتى بلغ ( للفقراء )
ثم قرأ ( والذين جاؤوا من بعدهم )
ثم قال : هذه استوعبت المسلمين عامة فلئن عشت فليأتين الراعي وهو بسرو حمير نصيبه منها لم يعرق فيها جبينه . رواه في شرح السنة
(2/424)

4062 – [ 8 ] ( لم تتم دراسته )

" اور حضرت مالک ابن اوس کہتے ہیں کہ ( ایک موقع پر ) حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت پڑھی ( جس میں زکوۃ کے مصارف کا بیان ہے ) آیت (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَا ءِ وَالْمَسٰكِيْنِ ) 9۔ التوبہ : 60) اور اس آیت کو انہوں نے علیم حکیم تک پڑھا اور فرمایا کہ اس ( زکوۃ کے مال ) کو پانے کے مستحق یہی لوگ ہیں ( جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے یعنی فقراء مساکین وغیرہ ) پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی آیت (وَاعْلَمُوْ ا اَنَّ مَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَه وَلِلرَّسُوْلِ) 8۔ الانفال : 41) اور اس آیت کو وابن السبیل تک پڑھا اور فرمایا کہ ( خمس کا مال ) انہی لوگوں کا حق ہے ( جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے یعنی ذوی القربیٰ وغیرہ ) اس کے بعد انہوں نے یہ آیت پڑھی ( جس میں مال فئی کا حکم بیان کیا گیا ہے کہ وہ کس کس کو دیا جائے ) آیت (مَا اَفَا ءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِه مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى) 59۔ الحشر : 7) اس آیت کو للفقراء والذین جاءوا من بعدہم تک پڑھا ( ایک نسخہ میں یہ عبارت ہے کہ حتی بلغ للفقراء ثم قراء والذین جاءوا اس کے مطابق مفہوم یہ ہوگا کہ انہوں نے اس آیت ماافاء اللہ کو پڑھنا شروع کیا اور للفقراء تک دو آیتوں کو پڑھا اور پھر یہ آیت والذین جاء وا من بعد ہم پڑھی ) اور پھر فرمایا کہ اس آیت نے سارے مسلمانوں کا احاطہ کر لیا ہے ۔ لہٰذا اگر میری زندگی رہی تو ( میری حدود خلافت میں کوئی ایسا مسلمان نہیں بچے گا جس کو اس کے حصہ کا مال نہ پہنچے یہاں تک کہ ) اس چروا ہے کو بھی مال فئی میں سے اس کا حصہ پہنچے گا جو مقام بسر اور حمیر میں ہوگا درآنحالیکہ اس ( مال کے حاصل کرنے ) میں اس کی پیشانی بھی عرق آلود نہیں ہوئی ہوگی ۔ " ( شرح السنّہ )

تشریح :
" اس آیت نے سارے مسلمانوں کا احاطہ کر لیا ہے " کا مطلب یہ ہے کہ اس میں جن لوگوں کو دینے کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سارے ہی مسلمان آجاتے ہیں بخلاف پہلی دونوں آیتوں کے کہ ایک میں تو صرف مستحقین زکوۃ کا ذکر ہے اور دوسری میں مستحقین خمس کا ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مال فئی میں سے خمس نکالنے کے قائل نہیں تھے جیسا کہ مال غنیمت میں سے نکالا جاتا ہے، ان کے نزدیک پورا مال فئی مسلمانوں کے اجتماعی مفاد و مصالح اور ان کی فلاح و اعانت میں خرچ کیا جانا چاہیے جو قرآن و حدیث میں مذکور فرق مراتب کے ساتھ ان کا حق ہے، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے سوا اکثر ائمہ فقہ کا مسلک بھی یہی ہے، نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے بھی قائل تھے کہ مال فئی کی تقسیم کے سلسلے میں مسلمانوں کے درجات و مراتب کے تفاوت کا لحاظ ضروری ہے جب کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر مسلمان کا برابر، برابر حصہ لگاتے تھے وہ قدامت اسلام اور نسب کی برتری وغیرہ کا لحاظ ضروری نہیں سمجھتے تھے بلکہ فرمایا کر تے تھے کہ اس چیز کا تعلّق آخرت سے ہے اگر کوئی شخص پہلے مسلمان ہوا ہے اور کسی شخص نے دین کی راہ میں زیادہ شجاعت و بہادری اور زیادہ سعی و مشقّت اختیار کی ہے تو ان کا یہ عمل اللہ کے لئے ہے اور ان کا اجر بھی اللہ ہی پر موقوف ہے ان چیزوں کو زیادہ مال کے استحقاق کی بنیاد نہیں بنانا چاہیے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ فرق مراتب اور تفاوت درجات کو ملحوظ رکھتے تھے اس لئے وہ جب مال تقسیم کرتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو زیادہ دیتے اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کم ، اور ان ( حضرت حفصہ ) سے فرماتے کہ " ( بیٹی ! تمہاری بنسنت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس خصوصیت کی بناء پر زیادہ دیتا ہوں کہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ ( عائشہ ) تم سے زیادہ چہیتی تھیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے باپ ( یعنی میری ) بہ نسبت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے باپ ( یعنی حضرت ابوبکر ) سے زیادہ تعلّق خاطر تھا ۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ( اپنے بیٹے ) حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہ نسبت حضرت اسامہ ابن زید کا حصہ زیادہ لگایا کر تے تھے اور ان ( ابن عمر ) سے بھی یہی فرماتے تھے کہ اسامہ کو تمہارے اوپر یہ فضیلت حاصل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہاری بہ نسبت اسامہ سے زیادہ تعلّق خاطر تھا اور تمہارے باپ سے زیادہ ان کا باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں پسندیدہ تھا ۔
" حمیر " یمن کے ایک علاقہ کا نام ہے جہاں یمن کا مشہور قبیلہ حمیر کے لوگ آباد تھے ۔ اس طرح " سرو " ایک جگہ کا نام تھا ، جو " حمیر " کے علاقہ میں تھا ۔
روایت کے آخر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے زندہ رکھا اور میری خلافت کے زمانے میں اسلام کو زیادہ سے زیادہ شہروں اور ملکوں پر تسلّط و غلبہ حاصل ہوا اور اس کے نتیجہ میں مال فئی بھی بہت ہاتھ لگا تو ان میں سے تمام مسلمانوں کو ان کا حصہ پہنچے گا خواہ وہ کتنے ہی دور دراز کے شہروں اور دیہاتوں میں کیوں نہ رہتے ہوں اور اس کے باوجود کہ اس مال کو حاصل کرنے میں انہیں ذراسی بھی مشقّت برداشت نہیں کرنا پڑی ہوگی۔

یہ حدیث شیئر کریں