مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ ذخیرہ اندوزی کا بیان ۔ حدیث 121

غلہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے لئے موعظت وعبرت

راوی:

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " من احتكر على المسلمين طعامهم ضربه الله بالجذام والإفلاس " . رواه ابن ماجه والبيهقي في شعب الإيمان . ورزين في كتابه

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم یہ فرماتے تھے کہ جو شخص غلہ روک کر گراں نرخ پر مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جذام وافلاس میں مبتلا کر دیتا ہے ۔

تشریح :
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص مخلوق اللہ اور خاص طور پر مسلمانوں کو تکلیف و نقصان میں ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جسمانی و مالی بلاؤں میں مبتلا کرتا ہے اور جو شخص انہیں نفع و فائدہ پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے جسم و مال میں خیر و برکت عطا فرماتا ہے ۔

(٥) اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس شخص نے چالیس دن تک گرانی کے خیال سے غلہ روک رکھا گویا وہ اللہ سے بیزار ہوا اور اللہ اس سے بیزار ہوا۔

تشریح :
وہ اللہ سے بیزار ہوا کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا وہ عہد توڑ ڈالا جو اس نے احکام شریعت کی بجاآوری اور مخلوق اللہ کے ساتھ ہمدردی و شفقت کے سلسلے میں باندھا ہے ۔
اسی طرح اور اللہ اس سے بیزار ہوا کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے اس بدترین عمل کے ذریعہ مخلوق اللہ کی پریشانی وتکلیف کا سامان کیا تو اللہ نے اس پر سے اپنی حفاظت اٹھا لی اور اس کو اپنا نظر کرم وعنایت سے دور کر دیا۔
(٦) اور حضرت معاذ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا غلہ وغیرہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والا بندہ برا ہے اگر اللہ تعالیٰ نرخوں میں ارزانی کرتا ہے تو وہ سنجیدہ ہوتا ہے اور اگر نرخوں کو گراں کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے ۔
(٧) اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس شخص نے گراں فروشی کی نیت سے غلہ کو چالیس روز تک روکے رکھا اور پھر اسے اللہ کی راہ میں خیرات کر دیا تو وہ اس کے لئے کفارہ نہیں ہوگا ۔

تشریح :
یہ گویا اس شخص کے لئے وعید و سزا ہے جو چالیس دن تک گراں فروشی کی نیت سے غلہ کو روکے رکھے کہ نہ تو اسے بازار میں لا کر بیچے اور نہ اس کے ذریعہ مخلوق اللہ کی غذائی ضروریات کو پورا کرے اور جو شخص اس سے کم مدت کے لئے احتکار کرے اس کے لئے بھی سزا ہے مگر اس سے کم درجہ کی۔

یہ حدیث شیئر کریں