مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ افلاس اور مہلت دینے کا بیان ۔ حدیث 125

وصولئی قرض میں در گذر کرنے کا اجر

راوی:

وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " كان رجل يدائن الناس فكان يقول لفتاه : إذا أتيت معسرا تجاوز عنه لعل الله أن يتجاوز عنا قال : فلقي الله فتجاوز عنه "

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا ایک شخص تھا جو لوگوں سے قرض لین دین کا معاملہ کرتا تھا (یعنی لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا) اور اس نے اپنے کارندے سے یہ کہہ رکھا تھا کہ جب کسی تنگدست کے پاس (قرض وصول کرنے جاؤ) تو اس سے در گذر کرو شاید اللہ تعالیٰ ہم سے در گذر فرمائے ۔چنانچہ آپ نے فرمایا کہ جب اس نے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی (یعنی اس کا انتقال ہو ) تو اللہ تعالیٰ نے اس سے در گذر فرمایا (اور اس کے گناہوں پر مؤ اخذہ نہیں کیا)
(٤) اور حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے محفوظ رکھے تو اسے چاہئے کہ وہ مفلس و تنگدست سے اپنا قرض وصول کرنے میں تاخیر کرے یا اس کو معاف کر دے (یعنی اپنا پورا قرض یا جس قدر ممکن ہو معاف کر دیے۔

تشریح :
یوں تو فرض اعمال نفل اعمال سے ستر درجے زیادہ فضیلت کے حامل ہیں لیکن بعض مسائل و معاملات میں نفل اعمال فرض اعمال سے زیادہ فضیلت کے رکھتے ہیں انہیں میں سے ایک تو تنگدست و مفلس کو اپنا حق (مثلًا قرض وغیرہ) معاف کر دینا ہے کہ یہ اگرچہ مستحب ہے لیکن مفلس و تنگدست کو قرض وغیرہ ادا کرنے میں مہلت دینے سے افضل ہے جو واجب ہے دوسرے سلام کرنے میں پہل کرنا سنت ہے لیکن یہ افضل ہے سلام کا جواب دینے سے جو فرض ہے تیسرے وقت سے پہلے وضو کرنا مستحب ہے لیکن یہ افضل ہے وقت شروع ہو جانے کے بعد وضو کرنے سے جو فرض ہے۔
(٥) اور حضرت ابوقتادہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جو شخص اپنا مطالبہ وصول کرنے میں مفلس کو مہلت دے یا اس کو اپنا پورا مطالبہ یا اس کا کچھ حصہ معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے گا۔ (مسلم)
٦) اور حضرت ابوالیسر کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جو شخص تنگدست کو مہلت دے یا اس کو معاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا (یعنی قیامت کے دن اسے گرمی کی تپش اور اس دن کی سختیوں سے محفوظ رکھے گا (مسلم)

تشریح :
امام احمد، ابن ماجہ، اور حاکم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی نقل کیا ہے کہ جو شخص مفلس وتنگدست کو مہلت دے تو ادائیگی کا دن آنے تک اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور پھر جب ادائیگی کا دن آئے اور وہ پھر اسے مہلت دے دے اور اس کی ادائیگی کا دن آنے تک ہر دن کے بدلے اس کے قرض کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے اور پھر جب ادائیگی کا دن آئے اور وہ پھر اسے مہلت دے دے تو اس کو ہر دن کے بدلے اس کے قرض کی دگنی مقدار کے برابر صدقہ کا ثواب ملتا ہے ۔
اس روایت کو تمثیلی طور پر یوں سمجھئے کہ مثلًا ایک شخص نے کسی کو دو مہینے کے وعدے پر ایک سو روپے قرض دیئے اور دو مہینے کے بعد اس کی مفلسی وتنگدستی کو دیکھتے ہوئے اس نے ایک مہینے کی مہلت دیدی تو اسے پورے مہینے اس طرح کا ثواب ملتا رہے گا کہ گویا وہ ہر دن ایک سو روپیہ صدقہ وخیرات کرتا ہے اسی طرح ایک مہینے کی مدت گزر جانے کے بعد دوبارہ مہلت دینے میں ایسا ہی ثواب ملتا رہتا ہے یہاں تک کہ جب تیسری مرتبہ مہلت دے گا تو اسے ہر دن ایسا ثواب ملے گا جیسے کہ وہ ہر دن دو سو روپے صدقہ وخیرات کرتا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں