مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ افلاس اور مہلت دینے کا بیان ۔ حدیث 130

ادائیگی قرض میں تاخیر کرنیوالوں کے لئے ایک عبرتناک واقعہ

راوی:

وعن سلمة بن الأكوع قال : كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه و سلم إذ أتي بجنازة فقالوا : صل عليها فقال : " هل عليه دين ؟ " قالوا : لا فصلى عليها ثم أتي بجنازة أخرى فقال : " هل عليه دين ؟ " قالوا : نعم فقال : " فهل ترك شيئا ؟ " قالوا : ثلاثة دنانير فصلى عليها ثم أتي بالثالثة فقال : " هل عليه دين ؟ " قالوا : ثلاثة دنانير قال : " هل ترك شيئا ؟ " قالوا : لا قال : " صلوا على صاحبكم " قال أبو قتادة : صلى الله عليه و سلم عليه يا رسول الله وعلي دينه فصلى عليه . رواه البخاري

اور حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا ، صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جنازہ کی نماز پڑھ لیجئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر قرض تو نہیں ہے صحابہ نے کہا کہ نہیں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ۔ پھر ایک اور جنازہ لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر قرض تو نہیں؟ عرض کیا گیا کہ ہاں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کچھ چھوڑ کر بھی مرا ہے یا نہیں صحابہ نے عرض کیا کہ تین دینار اس نے چھوڑے ہیں یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی پھر ایک تیسرا جنازہ لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اس پر قرض تو نہیں ہے صحابہ نے عرض کیا کہ ہاں تین دینار اس پر قرض ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کچھ چھوڑ کر بھی مرا ہے یا نہیں عرض کیا گیا کہ کچھ نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تم اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو ابوقتادہ نے جب یہ سنا تو کہا کہ یا رسول اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کی نماز جنازہ پڑھ لیجئے اس کا قرض میں ادا کر دوں گا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی (بخاری)

تشریح :
ہو سکتا ہے کہ تینوں جنازے ایک ہی دن اور ایک ہی مجلس میں لائے گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ الگ الگ دن اور الگ الگ مجلس میں یہ جنازے لائے گئے ہوں۔
دوسرے شخص پر جو فرض تھا اس کی مقدار انہیں تین دینار کے برابر رہی ہوگی جو وہ چھوڑ کر مرا تھا اس لئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم ہو گیا کہ اس شخص پر جتنا قرض ہے اس کی ادائیگی کے بقدر اثاثہ چھوڑ کر مرا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھ لی۔
تیسرا چونکہ اپنے قرض کی ادائیگی کے بقدر مال چھوڑ کر نہیں مرا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا اس انکار کی وجہ یا تو یہ تھی کہ اس سے لوگوں کو عبرت حاصل ہو اور وہ قرض سے پرہیز کریں اور اگر بدرجہ مجبوری قرض لیں تو اس کی ادائیگی میں تاخیر و تقصیر سے باز رہیں یا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھنا اس لئے مناسب نہیں سمجھا کہ میں اس کے لئے دعا کروں اور دعا قبول نہ ہو کیونکہ اس پر لوگوں کا حق تھا جس سے بری الذمہ ہوئے بغیر وہ مر گیا تھا۔
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ میت کی طرف سے ضامن ہونا جائز ہے خواہ میت نے ادائیگی قرض کے لئے مال چھوڑا ہو یا نہ چھوڑا ہو چنانچہ حضرت امام شافعی اور اکثر علماء کا یہی مسلک ہے بخلاف حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے ۔
بعض حنفی علماء کہتے ہیں کہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی حضرت امام احمد اور حنفیہ میں سے حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد نے اس حدیث سے اس بات کا استدلال کیا ہے کہ اس میت کی طرف سے کفالت جائز ہے جس نے کچھ بھی مال نہ چھوڑا ہو اور اس پر قرض ہو یہ حضرات کہتے ہیں کہ اگر میت کی طرف سے کفالت جائز نہ ہوتی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس تیسرے جنازہ کی نماز نہ پڑھتے۔
لیکن حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ مفلس میت کی طرف سے کفالت صحیح نہیں ہے کیونکہ مفلس میت کی طرف سے کفالت دراصل دین ساقط کی کفالت ہے اور یہ بالکل صاف مسئلہ ہے کہ دین ساقط کی کفالت باطل ہے۔
اب رہی یہ بات کہ حضرت ابوقتادہ نے میت کی طرف سے اس کے قرض کی کفالت کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوقتادہ کی کفالت کو تسلیم کر کے اس کی نماز جنازہ پڑھ لی تو اس کے بارے میں امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ سے صرف یہی ثابت نہیں ہوتا کہ ابوقتادہ نے اس شخص کی زندگی ہی میں اس کی طرف سے کفالت کر لی ہو گی اس موقع پر تو انہوں نے صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات کا اقرار و اظہار کیا کہ میں اس کی کفالت پہلے ہی کر چکا ہوں اب میں اس کے قرض کا ذمہ دار ہوں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس اقرار و اظہار پر نماز جنازہ پڑھی۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ابوقتادہ نے اس وقت میت کی طرف سے کفالت کی نہیں تھی بلکہ ازراہ احسان وتبرع یہ وعدہ کیا تھا کہ میں اس کا قرض ادا کر دوں گا۔

یہ حدیث شیئر کریں