مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ غصب اور عاریت کا بیان ۔ حدیث 163

کسی جانور کا دودھ مالک کی اجازت کے بغیر نہ دوہو

راوی:

وعن ابن عمر قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا يحلبن أحد ماشية امرئ بغير أذنه أيحب أحدكم أن يؤتى مشربته فتكسر خزانته فينتقل طعامه وإنما يخزن لهم ضروع مواشيهم أطعماتهم " . رواه مسلم

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے جانور کا دودھ اس کی اجازت یعنی اس کے حکم ورضا کے بغیر نہ دوہے کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کر سکتا ہے کہ کوئی شخص اس کے خزانہ یعنی اس کے غلہ کو گودام میں آئے اور اس کا خزانہ گودام کھول دے یہاں تک کہ اس کا غلہ اٹھا لیا جائے اسی طرح جان لو کہ دوسروں کے جانوروں کے تھن ان کی غذائی ضرورت یعنی دودھ کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (مسلم)

تشریح :
جانوروں کے تھن کو غلہ وغیرہ کے گودام سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح تم اپنے غلوں کو گوداموں میں بھر کر محفوظ رکھتے ہو اسی طرح دوسرے لوگوں کے جانور اپنے تھنوں میں اپنے مالک کی غذائی ضرورت یعنی دودھ کو محفوظ رکھتے ہیں لہذا جس طرح تم اس بات کو کبھی بھی پسند وگوارا نہیں کر سکتے کہ کوئی دوسرا شخص تمہارے گوداموں اور تمہارے خزانوں کو غیر محفوظ بن کر وہاں سے غلہ یا دوسری محفوظ اشیاء نکال لے اسی طرح تمہارا یہ فعل بھی جانوروں کے مالکوں کو کیسے گوارہ ہو سکتا ہے کہ تم ان جانوروں کے تھنوں سے دودھ نکال لو۔ حاصل یہ کہ تم دوسروں کے مال پر بری نگاہ نہ ڈالو اور دوسروں کے حقوق کو غصب نہ کرو تا کہ کوئی دوسرا تمہارے مال کو غصب نہ کرے ۔ اور جس طرح تم اپنا مال غصب کیا جانا گوارہ نہیں کر سکتے اسی طرح کسی دورے کا مال خود غصب کرنا بھی گوارہ نہ کرو۔
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اکثر علماء نے اس ارشاد گرامی پر عمل کرتے ہوئے یہ فتوی دیا ہے کہ کسی کے جانور کا دودھ مالک کی اجازت کے بغیر دوہنا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص بھوک سے بے حال ہو رہا ہو تو اس کے لئے اتنی اجازت ہے کہ وہ بقدر ضرورت کسی کے جانور کا دودھ پی لے مگر پھر اس کی قیمت ادا کرے۔ اگر اس کے پاس موجود ہو تو اسی وقت یہ قیمت دیدے ورنہ بعد میں جب بھی قادر ہو قیمت کی ادائیگی کر دے۔

ایک واقعہ
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کسی زوجہ مطہرہ (یعنی حضرت عائشہ ) کے ہاں قیام فرماتے کہ ازواج مطہرات میں سے کسی نے (یعنی حضرت زینب یا حضرت صفیہ اور یا حضرت ام سلمہ نے) ایک رکابی بھیجی جس میں کھانے کی کوئی چیز تھی اسے دیکھتے ہی ان زوجہ مطہرہ نے کہ جن کے ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرما تھے ( یعنی حضرت عائشہ نے) خادم کے ہاتھ پر اس طرح مارا کہ وہ رکابی گر پڑی اور ٹوٹ گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکابی کے وہ ٹوٹے ہوئے ٹکڑے اکٹھا کئے اور پھر ان ٹکڑوں میں کھانے کی وہ چیز جمع کی جو رکابی میں تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں کو غیرت آگئی تھی بہرکیف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر خادم کو روکے رکھا یہاں تک کہ جن زوجہ مطہرہ کے گھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرما تھے ( یعنی حضرت عائشہ ان کے ہاں سے دوسری رکابی مہیا کی گئی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی خادم کے ذریعہ ان زوجہ مطھرہ کے ہاں کہ جن کے ہاں رکابی ٹوٹ گئی تھی وہ صحیح وسالم رکابی بھیج دی اور وہ ٹوٹی ہوی رکابی ان زوجہ مطہرہ کے گھر رکھ لی جنہوں نے اس رکابی کو توڑا تھا ( بخاری)

تشریح :
خادم غلام کو بھی کہتے ہیں اور لونڈی کو بھی چنانچہ یہاں خادم سے مراد لونڈی ہی ہے کیونکہ حضرت عائشہ کے ہاں لونڈی ہی وہ رکابی اور اس میں کھانے کی کوئی چیز لے کر آئی تھی ۔ جب وہ رکابی گر کر ٹوٹ گئی اور اس میں سے کھانے کی وہ چیز بھی زمین پر گر گئی جو اس رکابی میں تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف رکابی کے ٹکڑوں کو اکٹھا کیا بلکہ کھانے کی اس چیز کو بھی نہایت احتیاط کے ساتھ جمع کیا اس فعل سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمال تحمل انتہائی توضع اور ازواج مطہرات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش مزاجی اور عفو درگزر کے عالی جذبات ہی کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نعمت کی بہت زیادہ تعظیم کرتے تھے۔ تمہاری ماں کو غیرت آگئی تھی یہ دراصل اس واقعہ کو سننے پڑھنے والوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطاب عام ہے اس ارشاد کے ذریعہ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کی طرف سے عذر بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو یہ اضطراری فعل صادر ہوا وہ درحقیقت اس غیرت کی بناء پر تھا جو ہر عورت کی جبلت وسرشت میں داخل ہے کہ کوئی بھی عورت خواہ وہ کتنے ہی اونچے مقام پر کیوں فائز ہو اپنی سوکن کے تئیں مخصوص رقیبانہ اور رشک آمیز جذبات واحساسات سے عاری نہیں ہو سکتی اور نہ کسی بھی عورت کے بس کی یہ بات ہے کہ وہ اپنی طبیعت اور اپنے نفس کو اس طبعی اور جبلی جذبہ سے محفوظ رکھ لے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے تاکہ لوگ حضرت عائشہ کے اس فعل کو برائی پر محمول نہ کریں بلکہ یہ جان لیں کہ ان سے یہ فعل بتقاضائے بشریت سرزد ہو گیا تھا جس میں ان کے مقصد وارادے یا کسی برائی کا قطعًا کوئی دخل نہیں تھا۔
قاضی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو اس باب میں نقل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ رکابی توڑ دینا ایک طرح کا غصب تھا کیونکہ اس سے ایک دوسرئے کا مال تلف ہوا اگرچہ اس کا سبب خواہ کچھ ہی رہا ہو۔ یا پھر یہ کہ کھانے کی جو چیز بھیجی گئی تھی وہ تو تحفہ کے طور پر تھی لیکن جس رکابی میں وہ چیز بھیجی گئی تھی وہ بطریق عاریت کے تھی اس لئے اس مناسبت سے یہ حدیث اس باب میں ذکر کی گئی ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں