مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مساقات اور مزارعات کا بیان ۔ حدیث 196

کسی کو اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے بطور رعایت دینا بہتر ہے

راوی:

وعن عمرو قال : قلت لطاووس : لو تركت المخابرة فإنهم يزعمون أن النبي صلى الله عليه و سلم نهى عنه قال : أي عمرو إني أعطيهم وأعينهم وإن أعلمهم أخبرني يعني ابن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم لم ينه عنه ولكن قال : " ألا يمنح أحدكم أخاه خير له من أن يأخذ عليه خرجا معلوما "

اور حضرت عمرو ابن دینار تابعی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت طاؤس تابعی سے کہا کہ اگر آپ مزارعت کو ترک کر دیتے تو بہتر تھا کیونکہ علماء کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ طاؤس نے کہا کہ عمرو! میں اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے لوگوں کو دیتا ہوں اور ان کی مدد کرتا ہوں اور سب سے بڑے عالم یعنی حضرت ابن عباس نے مجھے بتایا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ اپنے کسی بھائی کو اپنی زمین کاشت کرنے کے لئے دیدینا اس سے بہتر ہے کہ اس پر اس زمین کا کوئی لگان وغیرہ متعین کر کے لے لیا جائے (بخاری ومسلم)

تشریح :
مطلب یہ ہے کہ مزارعت میں تو یہ ہوتا ہے کہ کچھ دیا جاتا ہے اور کچھ لیا جاتا ہے یعنی اپنی زمین دی جاتی ہے اور اس کے عوض اس کی پیداوار میں سے کچھ حصہ متعین کر کے لیا جاتا ہے، لیکن اس کے برعکس اگر کسی کے ساتھ احسان کیا جائے بایں طور کہ اسے اپنی زمین بغیر کچھ لئے بطور رعایت دی جائے تو وہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ بہتر ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں