مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ اجارہ کا بیان ۔ حدیث 205

جھاڑ پھونک کرنیوالا اپنے عمل کی اجرت لے سکتا ہے

راوی:

وعن ابن عباس : أن نفرا من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم مروا بماء فبهم لديغ أو سليم فعرض لهم رجل من أهل الماء فقال : هل فيكم من راق ؟ إن في الماء لديغا أو سليما فانطلق رجل منهم فقرا بفاتحة الكتاب على شاء فبرئ فجاء بالشاء إلى أصحابه فكرهوا ذلك وقالوا : أخذت على كتاب الله أجرا حتى قدموا المدينة فقالوا : يا رسول الله أخذ على كتاب الله أجرا . فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله " . رواه البخاري وفي رواية : " أصبتم اقسموا واضربوا لي معكم سهما "

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت ایک ایسے گاؤں سے گزری جس میں کسی شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس رکھا تھا چنانچہ اس بستی کا ایک شخص ان صحابہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں میں کوئی شخص جھاڑ پھونک کرنیوالا بھی ہے کیونکہ ہماری بستی میں ایک شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس لیا ہے ؟ (اگر ایسا کوئی شخص ہے تو وہ میرے ساتھ چل کر اس شخص پر دم کر دے) چنانچہ ان میں سے ایک صحابی تشریف لے گئے اور انہوں نے بکریوں کے عوض سورت فاتحہ پڑھی۔ یعنی انہوں نے کہا کہ میں اس شخص پر اس شرط کے ساتھ جھاڑ پھونک کروں گا کہ میں اس کے عوض اتنی بکریاں لوں گا اسے بستی والوں نے منظور کر لیا لہذا ان صحابی نے سورت فاتحہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا کیونکہ منقول ہے کہ (فاتحۃ الکتاب شفاء من السم) یعنی سورت فاتحہ زہر کے لئے شفاء ہے لہذا وہ شخص اچھا ہو گیا پھر جب وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے تو ان ساتھیوں نے اس کو ناپسند کیا اور کہا کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے یہاں تک وہ سب صحابہ مدینہ پہنچے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں صحابی نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جن چیزوں کی اجرت لیتے ہو ان میں سب سے بہتر کتاب اللہ ہے ( بخاری)
ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے اچھا کیا ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی لگاؤ۔

تشریح :
لفظ (سلیم) اور لفظ (لدیغ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں یعنی سانپ کا ڈسا ہوا چنانچہ روایت کے الفاظ (لدیغ) أو (سلیم) میں او سلیم راوی کے لفظی شک کو ظاہر کرتا ہے یعنی راوی نے یہ دونوں لفظ نقل کر کے یہ ظاہر کیا ہے کہ مجھے یہ صحیح یاد نہیں ہے کہ اس موقع پر لفظ لدیغ کہا گیا تھا یا لفظ سلیم اور علامہ طیبی یہ کہتے ہیں کہ اکثر وبیشتر لفظ لدیغ کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جسے بچھو کاٹ لے اور سلم کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جسے سانپ ڈس لے اس صورت میں کہا جائے گا کہ اس موقع پر راوی کو معنی کے اعتبار سے شک ہوا ہے کہ یا تو وہ شخص بچھو کا کاٹا ہوا تھا یا سانپ کا ڈسا ہوا تھا ۔
بعض علماء نے لکھا ہے کہ جن صحابی نے سورت فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا وہ حضرت ابوسعید خدری تھے اور صحابہ کی وہ جماعت تیس نفوس پر مشتمل تھی اسی اعتبار سے سورت فاتحہ پڑھنے والے صحابی نے تیس بکریاں لی تھیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بکریوں میں اپنا حصہ لگانے کے لئے اس واسطے فرمایا تا کہ وہ صحابہ خوش بھی ہوں اور یہ بھی جان لیں کہ سروۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عوض حاصل ہونیوالی بکریاں بلا شک وشبہ حلال ہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کی آیتوں اور ذکر اللہ کے ذریعے جھاڑ پھونک کرنا اور اس کی اجرت لینا جائز ہے چنانچہ عامل روحانیات یعنی قرآن کریم کی آیتوں اور دیگر منقول دعا وعملیات کے ذریعے علاج کرنیوالے اپنے عمل یعنی تعویذ گنڈوں اور جھاڑ پھونک کی جو اجرت لیتے ہیں اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ تلاوت قرآن کی اجرت لینا جائز ہے کیونکہ ان دونوں میں فرق ہے اور وہ یہ کہ تلاوت قرآن ایک عبادت ہے اور عبادت کی قیمت لینا قطعًا جائز نہیں ہے اور کسی مریض و دکھی شخص پر قرآن پڑھ کر دم کرنا اور اس کی برکت سے شفاء حاصل ہو جانا عبادت نہیں ہے لہذا اس کی اجرت لینا جائز ہے۔
اس سے ثابت ہو گیا کہ مصحف یعنی قرآن کریم کو کتابی صورت میں بیچنا اس کو خریدنا اجرت پر اس کی کتابت کرنا اور دین کی دوسری کتابوں کو مزدوری پر لکھنا جائز ہے۔ اسی طرح متاخرین یعنی بعد کے علماء نے قرآن کریم کی تعلیم کو بھی اس پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ تعلیم قرآن کی اجرت لینا جائز ہے جب کہ متقدمین یعنی پہلے زمانے کے علماء جیسے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ وغیرہ نے تعلیم قرآن کی اجرت لینے کو حرام کہا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں