مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ غیرآباد زمین کو آباد کرنے اور پانی کے حق کا بیان ۔ حدیث 213

کسی چراہ گاہ کو اپنے لئے مخصوص کرلینے کی ممانعت

راوی:

وعن ابن عباس : أن الصعب بن جثامة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " لا حمى إلا لله ورسوله " . رواه البخاري

اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت صعب بن جثامہ نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی چراہ گاہ کو مخصوص کر لینے کا حق اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ اور کسی کو نہیں ہے (بخاری)

تشریح :
حمی (حا کے زیر کے ساتھ) اس زمین چراہ گاہ کو کہتے ہیں جس میں جانوروں کے لئے گھاس روکی جاتی ہے اور اس میں کسی دوسرے کے جانوروں کو چرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ لہذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات مناسب نہیں ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اجازت کے بغیر کسی چراگاہ کو صرف اپنے جانوروں کے لئے مخصوص کر لیا جائے اور اس میں دوسرے کے جانوروں کے چرنے پر پابندی عائد کر دی جائے۔
اس حکم کی ضرورت یوں پیش آئی کہ زمانہ جاہلیت میں یہ معمول تھا کہ جس زمین میں گھاس اور پانی ہوتا اسے عرب کے سردار اپنے جانوروں کے لئے اپنی مخصوص چراگاہ بنا لیتے تھے جس میں ان کے علاوہ دوسروں کے جانوروں کو چرنے کی قطعًا اجازت نہیں ہوتی تھی ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد میں کام آنیوالے گھوڑوں اور اونٹوں نیز زکوۃ میں آئے ہوئے جانوروں کے لئے ایسی مخصوص چراگاہیں قائم کرنے کی اجازت عطاء فرما دی تھی۔ لیکن اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی حاکم وسردار کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی چراگاہ کو اپنے لئے یا کسی اور کے لئے مخصوص کر دے۔ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ کسی فرد کے لئے نہیں بلکہ اکثر مسلمانوں کے لئے کسی چراگاہ کو مخصوص کرنا بھی ناجائز ہے یا یہ جائز ہے؟ چنانچہ بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کے گھوڑوں اور اونٹوں نیز زکوۃ میں آنیوالے جانوروں کے لئے چراگاہ کو مخصوص کرنے کی اجازت دیدی تھی لیکن بعض دوسرے حضرات اس کو بھی ناجائز کہتے ہیں بشرطیکہ اکثر مسلمانوں کے لئے کسی چراگاہ کو مخصوص کر دینا اہل شہر کی تکلیف وپریشانی کا باعث ہو۔

یہ حدیث شیئر کریں