مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ غیرآباد زمین کو آباد کرنے اور پانی کے حق کا بیان ۔ حدیث 214

کھیتوں میں پانی لے جانے کے سلسلے میں ایک تنازعہ اور آنحضرت کا فیصلہ

راوی:

وعن عروة قال : خاصم الزبير رجلا من الأنصار في شراج من الحرة فقال النبي صلى الله عليه و سلم : " اسق يا زبير ثم أرسل الماء إلى جارك " . فقال الأنصاري : أن كان ابن عمتك ؟ فتلون وجهه ثم قال : " اسق يا زبير ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر ثم أرسل الماء إلى جارك " فاستوعى النبي صلى الله عليه و سلم للزبير حقه في صريح الحكم حين أحفظه الأنصاري وكان أشار عليهما بأمر لهما فيه سعة

اور حضرت عروہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پہاڑی زمین سے کھیتوں میں پانی لے جانیوالی نالیوں کے سلسلے میں میرے والد حضرت زبیر اور ایک انصاری کے درمیان ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ( جب وہ معاملہ بارگاہ رسالت میں پہنچا تو ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زبیر! (پہلے تم اپنے کھیتوں میں' پانی لے جاؤ پھر اپنے ہمسایہ (یعنی اس انصاری) کے کھیتوں میں پانی چھوڑ دو (یہ فیصلہ سن کر) اس انصاری نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ زبیر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پھوپھی کے بیٹے ہیں یہ سنتے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ غصہ کی وجہ سے متغیر ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زبیر! اپنے کھیت میں پانی لے جاؤ اور پھر پانی کو روکے رکھو یعنی پانی کو اس انصاری کے کھیت میں نہ جانے دو تاکہ تمہارا پورا کھیت اچھی طرح سیراب ہو جائے اور پانی کھیت کی منڈیر تک پہنچ جائے۔ اس کے بعد نالی کا رخ اپنے ہمسایہ یعنی انصاری کے کھیت کی طرف کر دو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صریح حکم کے ذریعے حضرت زبیر کو ان کا پورا حق دلوایا اس لئے کہ اس انصاری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غضب آمیز کر دیا تھا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں ان دونوں کے بارے میں جو فیصلہ صادر فرمایا تھا اس میں دونوں ہی کے لئے آسانی تھی (بخاری ومسلم)

تشریح :
حضرت عروہ بن زبیر بن العوام جلیل القدر اور بڑے اونچے درجے کے تابعین میں سے ہیں، اس وقت مدینہ میں جو سات فقیہ تھے جن کا علم وفضل سب پر حاوی تھا ان میں سے ایک حضرت عروہ بھی ہیں ان کی والدہ محترمہ مشہور صحابیہ حضرت اسماء ہیں جو حضرت ابوبکر صدیق کی صاحبزادی ہیں اور ان کے والد حضرت زبیر مشہور صحابی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ بنت عبد المطلب کے صاحبزادے تھے ۔ حضرت زبیر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ قدیم الاسلام ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے بالکل ابتدائی دور ہی میں مشرف باسلام ہو گئے تھے جب کہ ان کی عمر صرف سولہ سال کی تھی ایک طرف تو یہ ان کی سعادت تھی کہ انہوں نے اتنی چھوٹی سی عمر میں ہی اسلام قبول کر لیا تھا دوسری طرف ان کے ظالم چچا کی شقاوت تھی کہ اس نے ان کو اسلام لانے کے جرم میں طرح طرح کی سزا ور اذیتوں میں مبتلا کیا یہاں تک کہ وہ بدبخت ان کو راہ مستقیم سے ہٹانے کے لئے دھویں میں ڈال دیا کرتا تھا مگر یہ نوخیز جان ساری اذیتیں برداشت کرتی تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کو برداشت کرتی مگر اسلام کی راہ میں جو قدم اٹھ چکا تھا وہ پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے ہی بڑھتا رہا ۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تمام غزوات جنگوں میں شرکت کی اور اسلام کا پر چم بلند کرنے کے لئے شجاعت وبہاردی کے جوہر دکھائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دس خوش نصیب صحابہ کو دنیا ہی میں جنت کی بشارت دے دی تھی اور جنہیں عشرہ مبشرہ کہا جاتا ہے ان میں سے ایک حضرت زبیر بھی ہیں۔
انہی حضرت زبیر کا واقعہ ہے کہ یہ اور ایک انصاری ایک ہی نالے کے ذریعے اپنے اپنے کھیتوں میں پانی لے جاتے تھے سوء اتفاق کہ ایک مرتبہ اسی نالی سے پانی لے جانے کے بارے میں ان دونوں میں یہ تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا کہ وہ انصاری تو کہتا تھا کہ پہلے میں اپنے کھیت میں پانی لے جاؤں گا اور حضرت زبیر یہ کہتے تھے کہ پہلے میں اپنے کھیت کو سیراب کروں گا جب یہ بات زیادہ الجھ گئی اور وہ آپس میں کوئی تصفیہ نہ کر سکے تو اپنا معاملہ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ حاصل کریں۔
موقع کی نوعیت یہ تھی کہ حضرت زبیر کی زمین بلندی پر بھی تھی اور نالی کے قریب بھی تھی جبکہ اس انصاری کی زمین نیچے تھی اور نالی سے دور تھی۔ قاعدہ کے مطابق پانی پہلے حضرت زبیر ہی کے کھیت میں جانا چاہئے تھا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت حال کے پیش نظر یہ منصفانہ فیصلہ صادر فرمایا کہ پہلے زبیر اپنے کھیت میں پانی لے جائیں بعد میں ان کا ہمسایہ یعنی وہ انصاری اپنے کھیت میں پانی لے جائے۔ حق وصداقت کا صحیح شعور کھو دینے والے انسان کی جبلت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ کسی معاملہ میں حق پر نہیں ہوتا اور اس کی وجہ سے فیصلہ اس کی خواہش کے برخلاف ہوتا ہے توہ بجائے اس کے کہ قبول کر کے انصاف کی برتری کو تسلیم کر لے کرتا یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے پر فیصلہ میں جانب داری کا الزام عائد کر دیتا ہے چنانچہ اس موقع پر بھی یہی ہوا کہ وہ انصاری چونکہ حق پر نہیں تھا اس لئے جب بارگاہ رسالت سے اس کی خواہش کے برخلاف فیصلہ صادر ہوا تو اس فیصلے کو برضا وتسلیم قبول کرنے کی بجائے اس نے یہ کہا کہ زبیر چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی ہیں اس لئے یہ فیصلہ کیا ہے اسی طرح گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جانب داری کا الزام عائد کیا ظاہر ہے کہ کسی منصف وعادل کے لئے ذہنی اذیت وکوفت کا اس سے بڑا اور کوئی سبب نہیں ہو سکتا کہ اس کے کسی منصفانہ فیصلے پر جانبداری اور عصبیت کا الزام عائد کر دیا جائے۔ اسی لئے جب اس انصاری نے یہ بات کہی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جبیں پر بل پڑ گئے اور غصے کے شدید ترین جذبات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ متغیر کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیصلے نے جس میں تھوڑی بہت رعایت اس انصاری کی بھی تھی) اس صریح حکم کی صورت اختیار کر لی کہ زبیر! اب تم اپنا حق پورا پورا لو اور وہ یہ کہ نہ صرف پہلے تم اپنے کھیت میں پانی لے جاؤ بلکہ کھیت کو پوری طرح سیراب کرو اس میں اچھی طرح پانی دو جب تمہارا کھیت منڈیروں تک بھر جائے تب نالی کا رخ اس انصاری کے کھیت کی طرف کرو۔
چنانچہ رایت کے آخری جملوں کا مطلب یہی ہے کہ ابتداء میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ صادر فرمایا تھا اس میں حضرت زبیر کو یہ اشارہ بھی تھا کہ اپنا کچھ حق ازراہ احسان اپنے ہمسایہ کے لئے چھوڑ دو تا کہ تمہارا کام ہو جائے جوانصاف کا تقاضہ ہے اور اس انصاری کے ساتھ بھی کچھ رعایت ہو جائے جو اگرچہ تم پر واجب نہیں ہے مگر آپس کے معاملات میں بہتری وبھلائی پیدا کرنے کے نقطہ نظر سے مناسب ہے مگر جب اس انصاری نے اس فیصلے کو قبول نہیں کیا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو اپنا حق پورا پورا حاصل کرنے کا حکم دیا۔ اب رہی یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اس انصاری کی اس گستاخی کا کیا سبب تھا؟ تو بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ انصاری دراصل منافق تھا اور منافقوں کا یہ رویہ تھا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذہنی اذیت وکوفت میں مبتلا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ منافق تھا تو اسے انصاری کیوں کہا گیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کو انصاری اس مناسبت سے کہا گیا ہے کہ وہ انصار کے قبیلے سے تعلق رکھتا تھا چنانچہ انصار کے قبیلوں میں بعض منافق بھی تھے مثلا عبداللہ ابن ابی وغیرہ۔
بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی یہاں پہنچ کر ایک یہ نیا سوال سر ابھارتا ہے کہ جب وہ منافق تھا اور اس نے دشمن رسالت میں اتنی بڑی گستاخی کی تھی تو اسے سزا کیوں نہیں دی گئی اسے فورا قتل کر دینا چاہئے تھا؟ اس سلسلے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اسے سزاء قتل نہ کرنے کا سبب یا تو اس کی تالیف یعنی ازراہ الفت ورعایت اس کو راہ حق لگانا تھا یا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس صبر وتحمل نے اس کو قتل کرنا گوارا نہ کیا جو ہمیشہ ہی منافقوں کی ایذاء رسانیوں پر ظاہر ہوتا تھا پھر اگر اسے قتل کر دیا جاتا تو مخالفین اسلام طعنہ کرتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرتے ہیں کیونکہ منافق بہرحال ظاہر طور پر اپنے کو مسلمان کہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھی ہونے کا اظہار کرتے تھے۔ بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ وہ انصاری مؤمن ہی تھا مگر غصہ اور جھنجھلاہٹ نے اس کے دل ودماغ کو اس طرح ماؤ ف کر دیا تھا کہ وہ اضطرارا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں یہ گستاخی کر بیٹھا۔ و اللہ اعلم

یہ حدیث شیئر کریں