مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ غیرآباد زمین کو آباد کرنے اور پانی کے حق کا بیان ۔ حدیث 215

جو پانی تمہاری ضرورت سے زائد ہو اسے جانوروں کو پلانے سے نہ روکو

راوی:

عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " لا تمنعوا فضل الماء لتمنعوا به فضل الكلأ "
(2/177)

2995 – [ 5 ] ( متفق عليه )
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ثلاثة لا يكلمهم الله يوم القيامة ولا ينظر إليهم رجل حلف على سلعة لقد أعطي بها أكثر مما أعطى وهو كاذب ورجل حلف على يمين كاذبة بعد العصر ليقتطع بها مال رجل مسلم ورجل منع فضل ماء فيقول الله : اليوم أمنعك فضلي كما منعت فضل ماء لم تعمل يداك "
وذكر حديث جابر في " باب المنهي عنها من البيوع "

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو پانی تمہاری ضرورت سے زائد ہو اسے جانوروں کو پلانے سے منع نہ کرو تا کہ اس کی وجہ سے ضرورت سے زائد گھاس سے منع کرنا لازم نہ آئے ( بخاری ومسلم)

تشریح :
عام طور پر جانوروں کو گھاس وہاں چرائی جاتی ہے جہاں پانی ہوتا ہے اس لئے اگر جانوروں کو پانی پلانے سے روکو گے تو کوئی وہاں اپنے جانور کاہے کو چرائے گا؟ اسطرح پانی پلانے سے روکنے کا مطلب یہ ہوگا کہ تم بالواسطہ طور پر گھاس چرانے سے روک رہے ہو اور گھاس چونکہ جانوروں کی عام غذا ہونیکی وجہ سے جانوروں کے لئے بہت زیادہ ضرورت کی چیز ہے اس لئے اس سے منع کرنا درست نہیں ہے لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ جانوروں کو پانی پلانے سے کسی کو نہ روکو تا کہ اس کی وجہ سے گھاس چرانے سے باز رکھنا لازم نہ آئے ۔ ضرورت سے زائد کی قید اس لئے ہے کہ اگر پانی اور گھاس اپنی اور اپنے جانوروں کی ضرورت کے بقدر ہی ہو تو اس صورت میں اپنی ضرورت کو مقدم رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ہاں اگر ضرورت سے زائد ہو تو پھر دوسرے کو منع کرنا انتہائی نامناسب بات ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رحم وکرم کی بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف بنظر عنایت دیکھے گا ایک تو وہ تاجر شخص ہے جو قسم کھا کر خریدار سے کہتا ہے کہ اس چیز کے جو دام تم نے دئیے ہیں اس سے زیادہ دام اسے مل رہے تھے ( یعنی جب وہ کسی کو اپنی کوئی چیز بیچتا ہے اور خریدار اس کی قیمت دیتا ہے تو وہ قسم کھا کر کہتا ہے کہ مجھے اس چیز کی اس سے زیادہ قیمت مل رہی تھی ) حالانکہ وہ شخص اپنی قسم میں جھوٹا ہے کیونکہ درحقیقت اس سے زیادہ قیمت اسے نہیں مل رہی تھی دوسرا شخص وہ ہے جو عصر کے بعد جھوٹی قسم کھائے اور اس جھوٹی قسم کھانے کا مقصد کسی مسلمان شخص یا ذمی کا کوئی مال لینا ہو اور تیسرا وہ شخص جو فاضل پانی پینے پلانے سے لوگوں کو منع کرتا ہو ایسے شخص سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جس طرح تو نے دنیا میں اپنے فاضل پانی سے لوگوں کو باز رکھا تھا باوجودیکہ وہ پانی تو نے اپنے ہاتھ سے نہیں نکالا تھا اسی طرح میں بھی آج تجھے اپنے فضل سے باز رکھوں گا ( بخاری)

تشریح :
عصر کے بعد کی تخصیص یا تو اس لئے ہے کہ مغلظہ قسمیں اسی وقت کھائی جاتی ہیں یا یہ تخصیص اس لئے ہے کہ عصر کے بعد کا وقت چونکہ بہت ہی بافضلیت اور بابرکت ہے اس لئے اس وقت جھوٹی قسم کھانا بہت ہی زیادہ گناہ کی بات ہے ۔ باوجودیکہ وہ پانی تو نے اپنے ہاتھ سے نہیں نکالا تھا یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص پر طعن کرے گا کہ اگر وہ پانی تیری قدرت کا رہین منت ہوتا اور تو اسے پیدا کرتا تو ایک طرح سے تیرا یہ عمل موزوں بھی ہوتا مگر اس صورت میں جب کہ وہ پانی محض میری قدرت سے پیدا ہوا تھا اور اسے میں نے ایک عام نعمت کے طور پر تمام مخلوق کے لئے مباح کر دیا تھا تو پھر تیری یہ مجال کیسے ہوئی کہ تو نے مخلوق اللہ کو میری اس نعمت سے باز رکھا ۔ اگرچہ کنواں اور نہر وغیرہ انسان کی مشقت ومحنت سے وجود میں آتے ہیں مگر اس کی اصل چیز یعنی پانی صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت سے پیدا ہوتا ہے اگر کوئی شخص کنواں بنوائے نہر کھدوائے یا ہینڈ پمپ وغیرہ لگوائے اور اس میں پانی نہ آئے تو اس کنویں یا نہر وغیرہ کی کیا حقیقت رہ جائے گی۔ اس لئے محض کنواں بنوا دینا یا ہینڈ پمپ وغیرہ لگوا دینا اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ اس شخص کو دوسروں پر پانی استعمال کرنے کی پابندی عائد کر دینے کا حق مل گیا ہے
وذکر حدیث جابر فی باب المنہی عنہا من البیوع
اور حضرت جابر کی روایت باب المنہی عنہا من البیوع میں ذکر کی جا چکی ہے
یعنی حضرت جابر کی یہ روایت کہ نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن بیع فضل الماء (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ضروریات سے زائد پانی کو بیچنے سے منع فرمایا ہے ) صاحب مصابیح نے یہاں نقل کی تھی لیکن صاحب مشکوۃ نے اسے باب المنہی عنہا من البیوع میں نقل کیا جو پیچھے گزر چکا ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں