مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ عطایا کا بیان ۔ حدیث 230

عمری اور قبی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت اور اس کی وضاحت

راوی:

عن جابر عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لا ترقبوا أو لا تعمروا فمن أرقب شيئا أو أعمر فهي لورثته " . رواه أبو داودوعنه عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " العمرى جائزة لأهلها والرقبى جائزة لأهلها " . رواه أحمد والترمذي وأبو داود

حضرت جابر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رقبی کرو اور نہ عمری کرو کیونکہ جو چیز یعنی مثلا مکان یا زمین ) بطور رقبی یا بطور عمری دی جاتی ہے وہ اس کے ورثاء کی ملکیت میں چلی جاتی ہے ( ابوداؤد)

تشریح :
عمری کی طرح رقبی بھی ہبہ ہی کی ایک شاخ ہے اس کی وضاحت بھی ابتداء باب کے حاشیہ میں کی جا چکی ہے چنانچہ رقبی کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے یہ کہے کہ میں اپنا مکان تمہیں اس شرط کے ساتھ دیتا ہوں کہ اگر میں تم سے پہلے مرگیا تو یہ مکان تمہاری ملکیت میں رہے گا اور اگر تم مجھ سے پہلے مرگئے تو پھر یہ میری ملکیت میں آجائے گا رقبی مشتق ہے ارقاب سے جو مراقبہ کے معنی میں ہے گویا رقبی میں ہر ایک دوسرے کی موت کا منتظر رہتا ہے۔
اس حدیث میں عمری اور رقبی سے منع کیا گیا ہے اور اس کی علت یہ بیان کی گئی ہے کہ تم جو چیز بطور عمری یا رقبی کسی کو دیتے ہو وہ اس شخص کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور تمہاری ملکیت چونکہ کلیۃً ختم ہو جاتی ہے اس لئے اس شخص کے مرنے کے بعد وہ چیز اس کے ورثاء کی ملکیت میں منتقل ہو جاتی ہے لہذا تم اپنے مال کو بطور عمری یا رقبی اپنی ملکیت سے نکال کر اپنا نقصان نہ کرو۔
اب رہی یہ بات کہ جب پہلے ہمیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ عمری اور رقبی جائز ہیں تو پھر اس ممانعت کا محمول کیا ہوگا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یا تو یہ ممانعت اس وقت فرمائی گئی ہو گی جب یہ دونوں جائز نہیں تھے اس صورت میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ حدیث منسوخ ہے یا پھر اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ عمری اور رقبی اگرچہ مصلحت کے خلاف ہیں لیکن جب یہ وقوع پذیر ہو جاتے ہیں (یعنی کسی کو کوئی چیز بطور عمری یا رقبی دیدی جاتی ہے) تو شرعی طور پر یہ صحیح ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ چیز نہ صرف اس کی ملکیت میں آجاتی ہے کہ جس کو دی گئی ہے بلکہ اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء کی ملکیت میں پہنچ جاتی ہے اس صورت میں اس حدیث کو منسوخ قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں رہے گی۔
عمری کے بارے میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ یہ حنفیہ کے ہاں جائز ہے لیکن رقبی کے بارے میں ملا علی قاری یہ لکھتے ہیں کہ یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد کے نزدیک تو جائز نہیں ہے لیکن حضرت امام ابویوسف کے قول کے مطابق جائز ہے۔
حنفی علماء میں سے بعض شارحین حدیث نے اس حدیث کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ یہ نہی (ممانعت) ارشادی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنا مال کسی مدت متعینہ تک کے لئے ہبہ نہ کرو کہ جب وہ مدت پوری ہو جائے تو اپنا مال واپس لے لو کیونہ جب تم اپنی کوئی چیز کسی کو دیدو تو وہ تمہاری ملکیت سے نکل گئی اب وہ تمہاری ملکیت میں نہیں آئے گی خواہ تم وہ چیز ہبہ کی صراحت کر کے دو یا عمری اور رقبی کے طور پر دو۔

یہ حدیث شیئر کریں