مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ فرائض کا بیان ۔ حدیث 262

ذوی الفروض کے حصے

راوی:

میت کے ترکہ میں باپ کا چھٹا حصہ ہوتا ہے جب کہ میت کا بیٹا یا پوتا اور یا پڑپوتا بھی موجود ہو اور اگر یہ نہ ہوں بلکہ بیٹی یا پوتی اور یا پڑپوتی موجود ہو تو باپ کو چھٹا حصہ بھی ملے گا اور وہ عصبہ بھی ہوگا اور اگر نہ تو بیٹا یا پوتا اور پڑپوتا ہو اور نہ بیٹی یا پوتی اور یا پڑپوتی ہو تو باپ صرف عصبہ ہوگا حاصل یہ ہے کہ پہلی صورت میں تو باپ صرف صاحب فرض ہوتا ہے اور دوسری صورت میں صاحب فرض بھی ہوتا ہے اور عصبہ بھی اور تیسری صورت میں صرف عصبہ ہوتا ہے ۔ اگر میت کا باپ موجود نہ ہو تو مذکوربہ بالا تینوں صورتوں میں اس کا دادا باپ کی مانند ہوگا اور اگر میت کے باپ اور دادا دونوں زندہ ہوں تو پھر دادا محروم ہوگا یعنی اسے میت کے ترکہ میں سے کچھ نہیں ملے گا۔
اخیافی بھائی اور اخیافی بہن کو میراث کا چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ وہ ایک ہو اور اگر وہ دو یا دو سے زائد ہوں تو ان کے لئے تہائی حصہ ہے جو مرد وعورت پر برابر تقسیم ہوگا اور اگر میت کا باپ یا دادا زندہ ہو یا اس کا بیٹا یا بیٹے کی اولاد موجود ہو تو پھر اخیافی بھائی بہن محروم ہونگے۔ اگر بیوی مر جائے اور اس کا بیٹا بیٹی نہ ہو اور بیٹے کی اولاد بھی نہ ہو تو اس کے ترکہ میں سے شوہر کو نصف حصہ ملے گا اور اگر بیٹا بیٹی یا بیٹے کی اولاد موجود ہو تو شوہر کو چوتھا حصہ ملے گا۔
اگر خاوند مر جائے اور نہ تو اس کے بیٹے بیٹی ہوں اور نہ بیٹے کی اولاد ہو تو اس کے ترکہ میں سے بیوی کو چوتھائی حصہ ملے گا اور اگر میت کے بیٹا بیٹی یا بیٹے کی اولاد موجود ہو تو بیوی کو آٹھواں حصہ ملے گا۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ اگر میت کی ایک ہی بیوی ہو تو اس کو بھی وہی حصہ ملے گا جو ذکر کیا گیا ہو اور اگر ایک سے زائد یعنی دو یا تین اور چار بیویاں ہوں تب بھی یہی حصہ ملے گا فرق صرف اتنا ہے کہ اگر ایک بیوی ہو گی تو مذکورہ بالا حصہ کی وہ تنہا حق دار ہوگی اور ایک سے زائد بیویاں ہوں گی تو وہ اس حصہ کو باہم تقسیم کر لیں گی۔
میت کے ترکہ میں سے ماں کو چھٹا حصہ ملے گا بشرطیکہ میت کے بیٹا بیٹی یا پوتا یا اس کی اولاد یا بہن یا دو بھائی اور دو بہن یا دو سے زائد بھائی اور بہن خواہ حقیقی بھائی بہن ہوں یا سوتیلے اور اخیافی ہوں موجود ہوں اگر ان میں سے کوئی بھی موجود نہ ہوگا تو ماں کو کل ترکہ میں سے تہائی حصہ ملے گا ۔ اور اگر ماں کے ساتھ باپ اور خاوند بھی ہو تو اس صورت میں باپ اور خاوند یا بیوی کا حصہ دے کر جو باقی بچے گا اس میں سے ماں کو تہائی حصہ ملے گا اور اگر مذکورہ بالا
صورت میں بیوی یا خاوند کے ساتھ باپ کے بجائے دادا موجود ہو تو پھر ماں کو تمام ترکہ کا تہائی حصہ ملے گا کیونکہ اس صورت میں دادا باپ کا قائم مقام نہیں ہوتا۔
دادی اور نانی کا چھٹا حصہ ہوتا ہے خواہ وہ ایک ہوں یا کئی ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر صرف ایک دادی یا صرف ایک نانی ہوگی تو وہ میت کے ترکہ کے چھٹے حصہ کی تنہا حق دار ہو گی اور اگر ایک سے زائد ہوں گی مثلا ایک دادی اور ایک نانی ہو یا دو دادی یا دو نانی ہوں تو وہ سب اس چھٹے حصہ کو باہم برابر تقسیم کر لیں گی بشرطیکہ وہ سب درجہ میں برابر ہوں اور اگر درجہ میں برابر نہ ہوں بلکہ درجہ میں متفاوت ہوں جیسے ایک دادی ہو اور ایک پڑدادی ہو یا ایک نانی ہو اور ایک پڑنانی ہو تو دور کے درجہ والی یعنی پڑنانی) قریب کے درجہ والی یعنی نانی کے سامنے محروم ہوگی اسی طرح ماں کی موجودگی میں تمام ہی جدات یعنی دادی ونانی وغیرہ محروم ہوتی ہیں نیز دادا کی موجودگی میں باپ کی دادیاں محروم ہوتی ہیں لیکن دادا کی بیوی یعنی باپ کی ماں محروم نہیں ہوتی۔
میت کی بیٹی میراث سے کبھی محروم نہیں ہوتی اگر اس کا بھائی یعنی میت کا بیٹا موجود ہوتا ہے تو وہ عصبہ بن جاتی ہے ورنہ ذوی الفروض رہتی ہے چنانچہ بیٹی کے میراث پانے کی دو تین صورتیں ہوتی ہے۔ اول یہ کہ صرف ایک بیٹی ہو اور اس کے ساتھ اس کا کوئی حقیقی یا سوتیلا بھائی نہ ہو تو میت کے ترکہ میں سے اس کو نصف حصہ ملتا ہے اور اگر کوئی دوسرا وارث بھی نہ ہو تو باقی نصف حصہ بھی اسی کو مل جاتا ہے دوم یہ کہ اگر دو بیٹیاں ہوں یا دو سے زائد ہوں اور ان کے ساتھ ان کا کوئی حقیقی یا سوتیلا بھائی نہ ہو تو ان بیٹیوں کے ترکہ میں سے دو تہائی ملے گا جسے وہ سب آپس میں برابر تقسیم کر لیں گی۔ سوم یہ کہ اگر بیٹیوں کے ساتھ میت کا بیٹا موجود ہو تو اس صورت میں بیٹی کا کوئی حصہ مقرر نہیں بلکہ وہ عصبہ بن جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میت کے ترکہ میں سے جس قدر بیٹے کو ملے گا اس کا آدھا ہر ایک بیٹی کو ملے گا خواہ ایک بیٹی ہو یا دو چار بیٹیاں ہوں چنانچہ اگر کسی میت کے متعدد بیٹے اور متعدد بیٹیاں ہوں تو ان میں ترکہ کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ ہر بیٹے کو دو حصے اور ہر بیٹی کو ایک حصہ دیا جائے گا ۔
اگر میت کے بیٹی بیٹا یا پوتا موجود نہ ہو صرف ایک پوتی ہو تو اس کو ترکہ میں سے نصف ملے گا اور اگر دو یا دو سے زیادہ پوتیاں ہوں تو ان کو کل ترکہ میں سے دو تہائی دیا جائے گا ۔ جسے وہ سب آپس میں برابر تقسیم کر لیں گی اگر میت کے بیٹا پوتا یا پڑپوتا موجود نہ ہو بلکہ صرف ایک بیٹی ہو تو پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا خواہ ایک پوتی ہو یا متعدد پوتیاں ہوں اور اگر میت کے دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں موجود ہوں گی تو اس صورت میں پوتی کو چھٹاحصہ ملے گا خواہ ایک پوتی ہو یا متعد پوتیاں ہوں اور اگر میت کے دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں موجود ہوں گی تو اس صورت میں پوتی بالکل محروم رہے گی ہاں اگر پوتی کے ساتھ میت کا پوتا بھی موجود ہو خواہ وہ نیچے ہی کے درجہ کا کیوں نہ ہو یعنی پوتا اور خواہ یہ پوتا اس پڑپوتی کا حقیقی بھائی ہو یا سوتیلا بھائی ہو اور یا چچا زاد بھائی ہو تو پھر چاہے میت کی ایک ہی بیٹی ہو یا متعدد بیٹیاں ہوں وہ پوتی عصبہ ہو جائے گی جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ذوی الفروض کے حصے دینے کے بعد جو کچھ بچے گا یہ پوتی اور پوتا آپس میں بطور عصوبت تقسیم کریں گے یعنی پوتے کو دو حصے اور پوتی کو ایک حصہ ملے گا لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اگر میت کا بیٹا موجود ہوگا تو پھر یہ پوتی ہر حال میں بالکل محروم رہے گی نیز اگر نہ تو میت کی اولاد موجود ہو اور نہ میت کے بیٹے کی اولاد موجود ہو تو مذکوربہ بالا تمام صورتوں میں میت کی پوتی اس کی پوتی کے قائم مقام ہوگی اور اگر بیٹی موجود ہے تو بیٹی کی اولاد محروم رہے گی اور اگر پوتی موجود ہے تو پوتی کی اولاد محروم قرار پائیگی۔
اگر میت کی اولاد موجود ہو یا اس کے بیٹے کی اولاد موجود ہو (خواہ وہ نیچے ہی کے درجہ کی کیوں نہ ہو) تو اخیافی بہن بھائی محروم قرار پاتے ہیں اسی طرح اگر میت کا باپ یا دادا موجود ہو تو اخیافی بہن بھائی محروم ہوتے ہیں۔
اگر میت کے کوئی بیٹا یا بیٹی یا پوتا پوتی اور یا پڑپوتا پڑپوتی موجود نہ ہو بلکہ صرف ایک حقیقی بہن ہو تو وہ ہر حال میں بیٹی کے قائم مقام ہوگی یعنی اگر ایک بہن ہو گی تو اسے میت کے کل ترکہ میں سے نصف ملے گا اور اگر دو یا دو سے زائد بہنیں ہوں گی تو انہیں کل ترکہ میں سے دو تہائی ملے گا جسے وہ آپس میں برابر تقسیم کر لیں گی مذکورہ بالا صورت میں سوتیلی بہن کا بھی یہی حکم ہے بشرطیکہ حقیقی بہن موجود نہ ہو۔
اگر میت کی بیٹی یا پوتی یا پڑپوتی اور سکڑپوتی موجود ہو (خواہ ایک ہو یا زیادہ ہوں) تو اس صورت میں حقیقی بہن اور اگر حقیقی بہن نہ ہو تو سوتیلی بہن عصبہ ہو جاتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ میت کے ترکہ میں سے ذوی الفروض کو دینے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ اس بہن کو مل جائے گا ۔
اگر میت کے حقیقی بھائی ایک یا زیادہ موجود ہو تو حقیقی بہن اس کے ساتھ مل کر عصبہ بن جائے گی اور اگر بھائی حقیقی نہ ہو بلکہ سوتیلا ہو تو حقیقی بہن اس سوتیلے بھائی کی موجودگی میں ذوی الفروض میں شامل ہوگی۔
اگر میت کے ایک حقیقی بھائی ہو اور اس کے ساتھ ہی سوتیلے بھائی بہن بھی ہوں تو اس حقیقی بھائی کی موجودگی میں وہ سوتیلے بھائی بہن محروم ہوں گے۔
اگر میت کی ایک حقیقی بہن موجود ہو تو اس کی موجودگی میں سوتیلی بہن کو چھٹا حصہ ملے گا خواہ وہ ایک ہو یا ایک سے زائد ہوں اور اگر حقیقی بہنیں ایک سے زائد ہوں تو پھر سوتیلی بہن ساقط ہو جائے گی اسے کچھ نہیں ملے گا ہاں اگر سوتیلی بہن کے ساتھ سوتیلا بھائی ہو تو پھر یہ سوتیلی بہن محروم نہیں ہوگی بلکہ خواہ ایک حقیقی بہن ہو ایک سے زائد ہوں اور خواہ ایک بھی نہ ہو ہر صورت میں سوتیلی بہن سوتیلے بھائی کے ساتھ عصبہ ہو جائے گی جس کا مطلب یہ ہوگا کہ ذوی الفروض کو دینے کے بعد میت کے ترکہ میں سے جو کچھ بھی بچے گا وہ سب ان سوتیلے بہن بھائی کے درمیان بطور عصوبت تقسیم ہو جائے گا اور اگر میت کی حقیقی بہن میت کی بیٹی یا پوتی یا پڑپوتی اور یا سکڑپوتی کے ساتھ عصبہ ہو جائے گی تو اس صورت میں سوتیلا بھائی اور سوتیلی بہن بالکل محروم رہیں گے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اگر میت کے بیٹا یا پوتا یا پڑپوتا اور یا سکڑپوتا موجود ہوگا تو میت کا حقیقی بھائی حقیقی بہن اور سوتیلے بھائی بہن محروم رہیں گے اسی طرح میت کے باپ یا دادا کی موجودگی میں بھی میت کے حقیقی اور سوتیلے بہن بھائی محروم رہیں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں