مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ فرائض کا بیان ۔ حدیث 265

میراث پانے سے محروم کردینے والی چیزیں

راوی:

اللہ تعالیٰ نے میت کا مال واسباب اس کے موجودہ ورثاء کو متعینہ حصوں اور مقررہ ضابطوں کے تحت دینے کا جو حکم دیا ہے اس میں دراصل میت اور اس کے ورثاء کے درمیان ایک خاص علاقہ تعلق اور رشتہ داری کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کوئی ایسی بات پیش آ جائے جس سے نہ صرف یہ کہ میت اور اس کے وارث کے درمیان کسی خاص علاقہ وتعلق کا اظہار نہ ہوتا ہو بلکہ وہ ایک قسم کی جدائی علیحدگی اور نفرت ثابت کرنے کا ذریعہ بن جائے تو وہ وارث میراث میت کا حق دار نہیں ہوگا اور اسے کوئی میراث نہیں ملے گی ۔ لہذا ایسی چار چیزیں ہیں جو کسی شخص کو میراث پانے سے محروم کر دیتی ہیں ان چار چیزوں کی تفصیل یہ ہے کہ
١) غلامی : نہ تو کسی غلام کا وارث کوئی آزاد شخص ہوتا ہے اور نہ خود غلام کسی آزاد شخص کا وارث بن سکتا ہے کیونکہ غلام شرعی طور پر کسی چیز کا مالک ہونے کی قابلیت ہی نہیں رکھتا اور نہ کوئی چیز اس کی ملکیت ہوتی ہے۔
٢) قتل : اگر کوئی بالغ وارث اپنے مورث کو قتل کر دے تو وہ وارث میراث پانے سے بالکل محروم ہو جائے گا لیکن یہاں قتل سے مراد وہ قتل ہے جس کی وجہ سے قاتل پر قصاص یا کفارہ واجب ہوتا ہے چنانچہ قتل کی پانچ قسمیں ہیں (جن کی تفصیل ان شاء اللہ اپنے موقع پر آئے گی) ان میں سے چار قسمیں ایسی ہیں کہ کسی میں قصاص واجب ہوتا ہے اور کسی میں کفارہ اور دیت لہذا ان چاروں صورتوں میں حنفی مسلک کے مطابق قاتل میراث سے محروم ہو جاتا ہے۔
جبکہ وہ اپنے مورث کو ناحق قتل کرے ہاں اگر وارث اپنے مورث کو ظلمًا قتل نہ کرے بلکہ دفاع کرتے ہوئے مورث پر وار کرے اور مورث مارا جائے مثلا مورث ناحق اس وارث پر حملہ کرے اور پھر وارث اپنے کو بچانے کے لئے مورث پر وار کرے اور اس کے وار کے نتیجے میں مورث مارا جائے یا مورث پر شرعا کسی وجہ سے بطور سزا قتل واجب ہو مثلًا قصاص کے طور پر) یا اس پر کوئی حد جاری کی جانی ضرور ہو اور بادشاہ یا قاضی کے حکم سے وارث نے اس مورث کو قتل کیا یا اس پر حد جاری کی اور وہ مر گیا تو اس صورت میں بھی وارث میراث سے محروم نہیں ہوگا۔
قتل کی پانچ قسموں میں ایک قسم (قتل بالتسبب) ہے قتل کی اس قسم پر نہ قصاص لازم آتا ہے اور نہ کفارہ بلکہ صرف دیت واجب ہوتی ہے چنانچہ اس قسم کے قتل میں بھی قاتل میراث سے محروم نہیں ہوتا۔ قتل بالتسبب کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کی زمین میں مالک کی اجازت کے بغیر پتھر رکھ دے یا کنواں کھود دے اور پتھر سے ٹھوکر کھا کر یا کنویں میں گر کر کوئی شخص مر جائے تو اس شخص پر دیت واجب ہوتی ہے۔
اسی طرح حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی نابالغ یا مجنوں اپنے مورث کو قتل کر دے تو وہ میراث سے محروم نہیں ہوتا کیونکہ نابالغ اور مجنوں کے اکثر افعال پر شرعی طور پر کوئی سزا واجب نہیں ہوتی۔
٣) اختلاف مذہب دو مذہبوں کا اختلاف میراث سے محروم کر دیتا ہے یعنی اگر وارث مسلمان ہے اور مورث غیر مسلم ہے ( خواہ وہ ہندو ہو یا عیسائی اور یہودی وغیرہ ہو) تو اس کی میراث مسلمان کو نہیں ملے گی اسی طرح اگر وارث غیر مسلم ہے اور مورث مسلمان ہے تو اس کی میراث غیر مسلم کو نہیں ملے گی۔
٤) اختلاف دارین : یعنی ممالک وطن کا اختلاف میت اور وارث کے ملک وطن کے ملک و وطن کا مختلف ہونا میراث سے محروم کر دیتا ہے مثلا ایک شخص دار الاسلام میں رہتا ہے اور ایک شخص دار الحرب میں تو دونوں ایک دوسرے کی میراث سے محروم رہیں گے۔ لیکن یہ حکم غیر مسلم کے لئے ہے۔ مسلمان مورث ووارث اگر اختلاف دارین بھی رکھ تے ہوں گے تب بھی ایک دوسرے کی میراث کے حقدار ہوں گے۔

یہ حدیث شیئر کریں