مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ فرائض کا بیان ۔ حدیث 266

میت کا ترکہ اس کے ورثاء کا حق ہے

راوی:

عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " أنا أولى بالمؤمنين من أنفسهم فمن مات وعليه دين ولم يترك وفاء فعلي قضاؤه . ومن ترك مالا فلورثته " . وفي رواية : " من ترك دينا أو ضياعا فليأتني فأنا مولاه " . وفي رواية : " من ترك مالا فلورثته ومن ترك كلا فإلينا "

حضرت ابوہریرہ نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں مسلمانوں کے حق میں خود ان سے بھی زیادہ عزیز ہوں یعنی دین و دنیا کے ہر معاملہ میں ایک مسلمان اپنے اوپر خود جتنا شفیق و مہربان ہو سکتا ہے میں اس پر اس سے بھی زیادہ شفیق و مہربان ہوں اسی لئے ان کے قرضوں کو ادا کرنے میں زیادہ حق دار ہوں لہذا جو شخص یعنی مسلمان مر جائے اور اس پر قرض ہو اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کا قرض ادا ہو سکتا ہو تو اس کے قرض کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو شخص اتنا مال چھوڑ جائے جو اس کے قرض کی ادائیگی اور اس کی کی ہوئی وصیت کی شرعی تکمیل کے بعد بھی بچ جائے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جو شخص قرض دار یا عیال دار مر جائے اور اس نے اتنا مال نہ چھوڑا ہو جس سے اس کے قرض کی ادائیگی ہو سکے یا اس کے عیال کی پرورش ہو سکے تو اس کا وکیل یا وصی میرے پاس آئے میں اس کا انتظام کروں گا یعنی میں اس کا قرض ادا کروں گا اور اس کے عیال کی نگہداشت وغم خواری کروں گا ۔ ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص مال چھوڑ کر مرے تو وہ مال اس کے وارثوں کا ہے اور جو بھاری چیز یعنی قرض اور عیال چھوڑ کر مرے تو اس کا انتظام کرنا میرے ذمہ ہے ( بخاری ومسلم)

تشریح :
شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ اگر کوئی شخص مرتا جس کے ذمہ قرض ہوتا اور اس کے ترکہ میں اتنا مال نہ ہوتا جو اس قرض کی ادائیگی کے لئے کافی ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے جنازہ کی نماز پڑھنے سے احتراز فرماتے لیکن جب حق تعالیٰ نے وسعت عطا فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کشائش مال کی نعمت میسر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ معمول بنا لیا کہ جو شخص قرضدار مر جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا قرض ادا کرتے اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھتے۔ یہ بات حضرت ابوہریرہ کی اس روایت سے مفہوم ہوتی ہے جو باب الافلاس والانظار کی پہلی فصل میں گزر چکی ہے اور یہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بے پناہ جذبہ شفقت ومہربانی اور کمال رحمت ہمدردی کا مظہر ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کے تئیں رکھتے تھے۔

یہ حدیث شیئر کریں