مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ وصیتوں کا بیان ۔ حدیث 297

وارث کے حق میں وصیت درست نہیں

راوی:

وعن أبي أمامة قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول في خطبته عام حجة الوداع : " إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث " . رواه أبو داود وابن ماجه وزاد الترمذي : " الولد للفراش وللعاهر الحجر وحسابهم على الله "
(2/196)

3074 – [ 5 ] ( لم تتم دراسته )
ويروى عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : " لا وصية لوارث إلا أن يشاء الورثة " منقطع هذا لفظ المصابيح . وفي رواية الدارقطني : قال : " لا تجوز وصية لوارث إلا أن يشاء الورثة "

اور حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے سال اپنے خطبہ میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دیدیا ہے لہذا وارث کے لئے وصیت نہیں ہے ( ابوداؤد ، ابن ماجہ)
اور امام ترمذی نے یہ مزید نقل کیا ہے کہ بچہ صاحب فراش کیلئے ہے اور زنا کرنیوالے کے لئے پتھر ہے، نیز ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور حضرت ابن عباس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نقل کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) کہ وارث کے لئے وصیت نہیں ہے مگر جب کہ وارث چاہیں، یہ حدیث منقطع ہے اور یہ مصابیح کے الفاظ ہیں۔
اور دارقطنی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہوتی مگر جب کہ وارث چاہیں۔

تشریح :
اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دیدیا ہے الخ ) کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ورثاء کے لئے حصے متعین ومقرر فرما دیئے ہیں خواہ وہ کسی وارث کے حق میں یہ وصیت کر بھی جائے کہ اسے دوسرے وارثوں سے اتنا زیادہ حصہ دیا جائے تو شرعی طور پر اس کا کچھ اعتبار نہیں ہاں اگر تمام ورثاء عاقل وبالغ ہوں اور وہ برضاء و رغبت کسی وارث کو میت کی وصیت کے مطابق اس کے حصے سے زیادہ دیدیں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے جیسا کہ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں آیت میراث نازل ہونے سے پہلے اپنے اقرباء کے حق میں وصیت کر جانا واجب تھا مگر جب آیت میراث نازل ہوئی اور تمام ورثاء کے حصے متعین و مقرر ہو گئے تو وصیت کا واجب ہونا منسوخ ہو گیا ۔
فراض ویسے تو عورت کو کہتے ہیں لیکن یہاں (الولد للفراش) میں فراش سے مراد صاحب فراش یعنی عورت کا مالک ہے۔ حدیث گرامی کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے زنا کرے اور اس کے نتیجہ میں بچہ پیدا ہو جائے تو اس بچہ کا نسب زنا کرنے والے سے قائم نہیں ہوتا بلکہ وہ صاحب فراش کی طرف منسوب ہوتا ہے خواہ وہ صاحب فراش زنا کرانے والی عورت کا خاوند ہو یا لونڈی ہونے کی صورت میں) اس کا آقا ہو اور یا وہ شخص جس نے شبہ میں مبتلا ہو کر اس عورت سے صحبت کر لی تھی۔
اور زنا کرنے والے کے لئے پتھر ہے یہ جملہ زنا کرنیوالے کی محرومی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جیسا کہ ہماری عام بول چال میں کسی ایسے شخص کے بارے میں کہ جسے کچھ نہیں ملتا کہہ دیا کرتے ہیں کہ اسے خاک پتھر ملے گا، لہذا اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ زنا کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالے بچہ کا نسب چونکہ زنا کرنیوالے سے قائم نہیں ہوتا اس لئے ولد الزنا کی میراث میں سے اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ یا پھر یہ کہ یہاں پتھر سے مراد سنگسار کرنا ہے کہ اس زنا کرنیوالے کو اگر وہ شادی شدہ تھا سنگسار کر دیا جائے گا )۔
ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس بدکاری میں مبتلا ہونیوالوں کا حساب و کتاب اللہ پر ہے کہ وہ ہر ایک کو ان کے کرتوت کے مطابق بدلہ دے گا۔ ویسے یہ جملہ ایک دوسرے معنی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور وہ یہ کہ جہاں تک دنیا کا تعلق ہے تو یہاں ہم زنا کرنیوالوں کو سزا دیتے ہیں بایں طور کہ ان پر حد جاری کرتے ہیں اب رہا وہاں یعنی آخرت کا معاملہ تو یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ومنشاء پر موقوف ہے چاہے تو مؤ اخذہ کرے اور چاہے تو اپنے بے پایاں رحم وکرم کے صدقہ میں انہیں بخش دے۔
مذکورہ بالا عبارت کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو شخص زنا کرے یا کسی اور گناہ میں مبتلا ہو اور اس پر کوئی حد قائم نہ ہو یعنی دنیا میں اسے کوئی سزا نہ دی جائے تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے وہ چاہے تو اسے بخش دے اور چاہے اسے عذاب میں مبتلا کرے۔

یہ حدیث شیئر کریں